چاچی کا ریپ

چاچی کا ریپ 

۔

چاچی کا ریپ کہانی مجھے میرے ایک جاننے والے نے سنائی تھی۔جو کہ اس کی اور اس کی چاچی کی آب بیتی تھی ۔ جو کہ اسی کی زبانی تھوڑے سے مرچ مسالحے اور چٹنی کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ اب آتے ہیں کہانی کی طرف ۔ دوستو ۔ میرا نام شاہد ہے ۔اور میری عمر اس وقت صرف پچیس سال ہے ۔ جس وقت کا یہ واقعہ ہے ۔ اس وقت میری عمر صرف سولہ سال تھی ۔اور میری ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں ۔ میرے چھوٹے چچا کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور گھر میں نئی آنے کی وجہ سے میری چچی ہر کسی سے مسکرا کر بات کرتی تھیں ۔سسرال میں سب کے دلوں میں جگہ جو بنانی تھی۔ میری چچی کی عمر اس وقت تقریباًسترہ سال تھی۔ اور ہماری عمروں میں زیادہ فرق ناں ہونے کی وجہ سے ہم دونوں کافی بے تکلف بھی تھے۔ شادی کے بعد کچھ مہینے چچا گھر پر ہی رہے پھر وہ نوکری کرنے لاہور چلے گئے ۔کیونکہ گھر کے زیادہ تر اخراجات چچا کی تنخواہ سے ہی چلتے تھے۔ جاتے جاتے چچا مجھے چچی کا خیال کرنے کی تاکید کرکے گئے ۔ میں جب سکول سے آتا تو زیادہ وقت چچی کے ساتھ ہی گزارتا۔ اور اسی کھیل کود میں پتا نہیں کب میری نظر بدلی اور میں نے چچی کو دوسری نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ۔اکثر چچی میرے سامنے دوپٹا ہم ہی لیتی اور اس کے کسے ہوئے ممے مجھے اس کی قمیض کے اندر بڑے نمایاں طور پر نظر آتے ۔

کبھی میرے سامنے بغیر برا کے آتی تو اس کے ممے بے قابو ہو کر کپڑوں سے باہر ابل پڑنے کے لئے بےچین ہوتے۔ لیکن چچی نے کبھی میرے غلط نظروں کو محدوس ناں کیا۔ مجھے اپنے ایک دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ جب ہم اس کے گھر پہنچے تو اس کے گھر میں کوئی نہیں تھا ۔ پانی وغیرہ پینے کے بعد پہلے توہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔پھر اچانک اس نے کہا کہ آؤ آج تمھیں ایک نئی چیز دکھاؤں ۔ میں نے پوچھاکہ کیاتوو ہ مجھے اپنے بھائی کے کمرے میں لے گیا ۔ پھر اس نے اپنے بھائی کا کمپیوٹر چلایا اور تھوڑی دیر انگلیاں چلانے کے بعدایک ویڈیو کلپ چلا دیا ارے یہ کیا اس وڈیو میں ایک آدمی ایک عورت کو چود رہا تھا۔ میں نے زندگی میں یہ سب کچھ پہلی مرتبہ دیکھا تھا ۔میں اپنے دوست سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ۔تو میرے دوست نے کہا کہ اسے چودائی کہتے ہیں اور یہ کام کرنے کا بڑا مزا آتا ہے ۔

کہا کہ میں نے تو کبھی چودائی نہیں کی ۔اور پھر لڑکی چودائی کے لئے کیسے مانتی ہے ۔اور یہ کہ جب لن پھدی کے اندر جاتا ہے تو کیا درد نہیں ہوتا لڑکی کو ۔تو میرے دوست نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر لڑکا لڑکی شادی کے بعد ہی یہ کام کرتے ہیں ۔ اور لڑکیاں اپنی مرضی سے یہ سب کچھ کرواتی ہیں ۔ لیکن بہت سے لڑکے لڑکیاں یہ کام شادے کرتے ہیں لیکن یہ کام چھپچھپا کرتے ہیں میں یہ کام کیسے کرسکتا ہوں ۔میری تو کسی لڑکی سے بات چیت نہیں ہے۔ میرے دوست نے کہا کہ ایک اور طریقہ بھی ہے ۔لیکن اس کے لئے رازداری کی شرط ہے ۔ میں نے کہا کہ مجھے منظور ہے ۔جس پر اس نے کمرے کا درواز ہ کھول کر باہر جھانکا اورپھر دروازے کی کنڈی لگا دی ۔ پھر اس نے وہی فلم دوبارہ لگا دی ۔فلم میں لڑکی لڑکے کے لنڈ کو مسل رہی تھی ۔تھوڑی دیر کے بعد اس نے لڑکے کا لنڈ اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا ۔ جس پر لڑکے کے منہ سے سیکسی آوازیں نکلنے لگیں پھر لڑکا لڑکی کے ممے دبانے لگا اور پھر اس نے لڑکی کا ایک مما میں لے کر چوسنا شروع کر دیا جیسے بچہ دودھ پیتا ہے ۔ لڑکے کی اس حرکت پر لڑکی بھی مزے سے سسکنے لگی ۔اور اس دوران میرا لن بھی تن چکا تھا ۔ میری حالت دیکھ کر میرادوست ایک دراز سے کنڈوم نکال لایا ۔اور پھر اس نے میری شلوار اتار دی اور کنڈوم میرے لنڈ پر چڑھا دیا اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر اسے دھیرے دھیرے سہلانے لگا اس کے طرح کرنے سے مجھے بہت مزا آنے لگا جب اس نے دیکھا کہ میں مزے سے بے حال ہوگیا ہو تو اس نے اپنی شلوار بھی اتار دی اور میرے سامنے جھک کر کھڑا ہو گیا اور مجھے کہا کہ میں اپنا لنڈ اس کی گا نڈ میں ڈال دوں ۔ اب مجھے اس کی اس حرکت کی وجہ سمجھ آگئی تھی ۔ میں نے اپنے لنڈ کا ٹوپا اس کی گانڈ کے سوراخٓ پر رکھ کر تھوڑا سا زور لگایا تووہ اس کی گانڈ کےاندر چلا گیا ۔ اس دوران جب میری کمپیوٹر پر نظر پڑی تو لڑکا لڑکی کی پھدی کے اندر لنڈ ڈالکر زور زور سے اسے چود رہا تھا ۔ میں بھی اسی طرح لنڈ کو اس کی گانڈ کے اندر باہر کر نا شروع کر دیا ۔

اس طرح کرنے سے میرے لنڈ کے اندر مزے اور سرور کی لہریں دوڑنے لگیں ۔اور مجھے بےحد مزا آنے لگا۔ اور میں اس کی گانڈ میں زور زور سے گھسے مارنے لگا ۔تقریباً دس منٹ کے بعد میں اس کی گانڈکے اندر فارغ ہو گیا ۔پھر میں نے اپنا لنڈ اس کی گانڈ سے باہر نکالا اور واش روم میں جا کر کنڈوم اتار کر اسے فلش میں بہا دیا ۔اب میرا جوش ختم ہو گیا تھا ۔اور اس کی جگہ ہلکی سی تھکاوٹ نے لے لی تھی ۔ پھر میرے دوست نے بھی واش روم جا کر صفائی کی ۔اور واپس آکر پو چھا کہ مزا آیا تو میں نے اثبات میں سر ہلا کر کہا کہ بہت ۔پھر کچھ دیر کے بعد میں اپنے گھر واپس آگیا۔

اس طرح سے ہر دوسرے تیسرے روز یہ سلسلہ تقریباً دو ماہ تک چلتا رہا لیکن پھدی ملنے کا کوئی چانس نظر نہیں آرہا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئیں ۔میرا دوست بھی گھومنے پھرنے ملتان چلا گیا۔ اور مجھے بنڈ مارنے کا جو چسکا لگا ہوا تھا ۔ میں اس سے بھی گیا۔ لیکن لن تو پھدی یا بنڈ کی ڈیمانڈ کرتا تھا اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں ۔ اسی طر ح دن پر دن گزرتے جارہے تھے ۔لیکن سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ گھر میں میں اور چاچی اکیلے تھے۔ اور چاچی کپڑے دھورہی تھیں ۔ اور ان کے اپنے کپڑے بھی گیلے ہو کر ان کے جسم سے چپک گئے تھے ۔اور ان کے ممے اور بنڈ صاف نظر آرہے تھے اور میرا لنڈ بھی بار بار لہرا رہا تھا۔ اور میرا دل کر رہا تھا کہ چاچی کو پکڑکر ہی چود ڈالوں لیکن کوئی رستہ نظر نہیں آرہا تھا۔

پھر اچانک ہی میرے ذہن میں ایک ترکیب آگئی ۔ اور میں بھاگ کر محلے کے میڈکل سٹور پر گیا اور وہاں سے فنرگن کا شربت لے آیا ۔


اس کے ساتھ ہی ایک ڈیڑھ لیٹر والی پیپسی بھی لے لی۔ اس دوران چاچی بھی کپڑے دھو کر فارغ ہو چکی تھیں ۔ میں نے بڑخاموشی سے اپنے لئے ایک گلاس میں پیپسی نکالی اور باقی کی بوتل میں فنرگن کا شربت ملا دیا ۔چاچی پیپسی دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے بھی فوراً ایک گلاس بھر لیا ۔انہیں شایدزیادہ پیاس لگی ہوئی تھی ۔اس لئے انہوں نے دو گلاس پی لئے اور مجھے اپنے کمرے میں آنے کو کہا اور جب میں ان کے کمرے پہنچا تو وہ لباس تبدیل کرکے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں ۔میں بھی ان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگا ۔لیکن تھوڑی سی دیر کے بعد ہی وہ سو گئیں۔ میں نے انہیں پہلے تو آوازیں دیں پھر ہلایا جلایا لیکن ان کی طرف سے کوئی ردعمل ناں آیا۔

پھر سب سے پہلے میں نے اپنے گھر کےخارجی دروازے کی کنڈی لگائی۔ اور دوبارہ آکر چاچی کے پاس بیٹھ کر انہیں ہلایا جلایا لیکن انہیں دین دنیا کی کوئی ہوش ناں تھی۔ پھر میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی چھاتی پر ہاتھ رکھا لیکن ان کی طرف سے کوئی ردعمل ناں آیا جس پر میراحوصلہ کچھ مزید بڑھا اور دھیرے دھیرے میں کمیض کے اوپر سے ان کے ممے سہلانے لگا ۔پھر آہستہ آہستہ میں نے ان کی قمیض اوپر کر دی اور بریزر کے اوپر اوپر سے ہی انہیں سہلانے لگا۔ پھر میں نے انہیں بریزر سے نکال لیا اور انہیں چومنے چاٹنے لگا لیکن چاچی کو کسی بات کی ہوش ناں تھی۔

اور میرا لن مزے کی شدت سے پھٹنے والا ہو گیا تھا۔ پھر دھیرے دھیرے میں نے چاچی کی شلوار بھی اتار دی ۔واہ کیا پھدی تھ چاچی کی ایک دم صاف اور چکنی ۔میں نے اپنی شلوار بھی اتار دی اور چاچی کی ٹانگیں کھول کر ان کے درمیان بیٹھ گیا اور اپنے لن کو چاچی کی پھدی پر مسلنے لگا لیکن میں زیادہ دیر تک ایسا ناں کر سکا کیوںکہ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ پھر میں نے چاچی کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور لن کو ان کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کرکے ایک زوردار دھکا مارا میرے اس عمل سے میرا آدھا لن چاچی کی پھدی کو چیرتا ہوا اس کے اندر گھس گیا ۔

اس کے ساتھ ہی میں نے ایک اور دھکا مارا اور میرا پورالن چاچی کی پھدی کے اندر چلا گیا ۔لیکن شائد میرا یہ فعل چاچی کے لئے تکلیف کا باعث تھا۔ کیونکہ چاچی کی آنکھ کھل چکی تھی ۔لیکن میں ان کی پھدی میں لن کو تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا اور مجھے اس طرح جرکے بے حد مزا آرہا تھا ۔لیکن چاچی میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرہی تھی اور ساتھ مجھے گالیاں بھی دے رہی تھی اور مجھے اپنی پھدی سے لن نکالنے کا کہہ رہی تھی ۔لیکن جتنی وہ مزاحمت کرتی میں اتنی ہی تیزی سے گھسے مارتا ۔ تقریباًدس منٹ ان کو چودنے کے بعد میں ان کی پھدی کے اندر ہی فارغ ہو گیا۔ لیکن چاچی اب بھی مجھے گالیاں دے رہی تھیں۔فارغ ہونے کے بعد میں اپنے کپڑے پہنے اور ان کے کمرے سے باہر چلاگیا لیکن ساتھ اب میں پریشان بھی تھا کہ اگر چاچی نے گھر والوں سب کچھ بتا دیا پھر کیا ہو گا۔

دیر تک تو میں ادھر ادھر آوارہ گردی کرتا رہا اور اس ڈر سے گھر کا رخ ناں کیا کہ کہیں چاچی گھر والوں کو ناں بتا دے لیکن پھر دل بڑا کرکے میں دوبارہ گھر کی طرف چل دیا ۔جب میں گھر میں داخل ہوا تو گھر میں صرف چاچی ہی تھی ۔ اچانک مجھے ایک ترکیب سو جھی ۔ میں سیدھا چاچی کے کمرے میں داخل ہوا اور جاتے ہی چاچی کے پاؤں پکڑلئے اور رو رو کر ان سے معافی مانگنے لگا ۔پہلے پہل تو چاچی نے مجھے دھتکارا لیکن پھر اچانک بولی کہ تمھیں صرف ایک شرط پر معافی مل سکتی ہے ۔میں نے پوچھا ۔ کہ کس شرط پر چاچی نے کہا کہ جب میں کہوں تو آج جو کام تم نے میرے ساتھ کیا ہے وہی کا م کرنا پڑےگا۔ تو خود بھی یہی چاہتا تھا اس لئے فوراً حامی بھر لی اور چاچی کو کس کر جپھی ڈال لی ۔پھر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔اسی دوران میری امی بھی بازار سے واپس آگئیں ۔

اور میں پڑھائی کا بہانہ بنا کر بیٹھک میں آگیا۔ اس رات جب میں سونے کے لئے لیٹا تو میری آنکھوں میں چاچی کا سراپا گھوم رہا تھا۔ پھر ایک دن میں نے ایک عجب ماجرا دیکھا ۔اس دن مجھے سکول سے جلدی چھٹی ہو گئی تھی اور میں جلدی گھر چلا گیا۔ ہمارے پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ۔جب میں اپنے کمرے کی طرف گیا ۔تو میری امی کی دھیمی دھیمی سسکیا ں سنائی دیں ۔ میں تیزی سے بھاگ کر اپنے کمرے میں داخل ہوا لیکن یہ کیا میرے دادا میرے امی کی ٹانگیں کندھوں پر رکھے میری امی کو زور زور سے چود رہے تھے اور امی کے منہ سے سیکسی آوازیں نکل رہی تھیں ۔ مجھے اچانک کمرے میں دیکھ کر وہ دونوں تو ہکا بکا ہی رہ گئے ۔ دادا ابو نے جلدی سے اپنی دھوتی ٹھیک کی اور کمرے سے باہر نکل گئے ۔

امی نے بھی جلدی سے اپنے کپڑے پہنے اور مجھے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے بٹھا لیا ۔پھر میرا ماتھا چوم کر کہنے لگیں کہ تم یہ بات کسی کو مت بتانا ورنہ تمھارے ابو مجھے جان سے ماردیں گے اس کے بدلے میں تم جو مانگو گے ۔ میں تمھیں وہی کچھ دلادوں گی۔ میں نے پہلے تو تھوڑی سی ضد کی کہ نہیں میں ابو کو بتاؤں گا۔ پھر کہا کہ سوچ لیجئے ۔بعد میں مکر ناں جائے گا۔امی نے کہا کہ نہیں مکرتی میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔جس طرح آپ دادا ابو کے ساتھ کررہی تھیں میرے ساتھ بھی کریں ۔ کیا امی کے منہ سے نکلا ۔میں نے کہا کہ اگر دادا ابو کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں ۔ امی نے کچھ دیر کچھ سوچا پھر کہا کہ ٹھیک ہے لیکن تم بھی اپنے وعدے پر قائم رہنا کہا کہ آپ فکر ہی ناں کریں۔ لیکن یہ سارا کچھ ابھی ہوگا ۔

امی نے کہا کہ کوئی آناں جائے جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے تم آگئے تھے ۔میں نے کہا آپ اس بات کی بالکل فکر ناں کریں۔ یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر نکل آیا اور ہر طرف سے تسلی کرکے اپنے گھر کا بیرونی دروازہ بند کر دیا پھر میں کمرے میں آگیا اور کمرے کی بھی اندر سے کنڈی لگا دی۔اور امی سے کہا کہ اب جلدی سے اپنے کپڑے اتار دیں ۔یہ کہہ کر میں نے بھی جلدی سے اپنے کپڑے اتاردئیے ۔اس وقت ہمیں کسی کی مداخلت کا ڈر تو نھیں تھا ۔لیکن میں یہ سب کچھ اس لئے چاہتاتھا کہ امی کہیں بعد میں مکر ناں جائیں ۔امی نے بھی جلدی سے اپنے کپڑے اتار دئیے ۔اف امی کی چھاتیاں کافی بڑی تھیں اور مست بھی



ہمیں کسی کی مداخلت کا ڈر تو نھیں تھا ۔لیکن میں یہ سب کچھ اس لئے چاہتاتھا کہ امی کہیں بعد میں مکر ناں جائیں ۔امی نے بھی جلدی سے اپنے کپڑے اتار دئیے ۔اف امی کی چھاتیاں کافی بڑی تھیں اور مست بھی میں جلدی سے ان پر ٹوٹ پڑا اور بے تحاشا انھیں چومنے لگا اور امی کے بدن پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد امی بھی مجھے پیار کر نے لگیں لیکن مجھے سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہاتھا ۔اس لئیے تھوڑی دیر کے بعد میں نے امی کو بستر پر لٹا دیا اور خود ان کی ٹانگیں کھول کر ان کے درمیان بیٹھ گیا اور امی کی پھدی پر اپنا لن رگڑنے لگا ۔

امی کی پھدی پانی چھوڑرہی تھی اور کافی چکنی تھی ۔پھر میں نے اپنا لن ان کی پھدی کے سوراخ پر سیٹکیا اور ایک زوردار جھٹکے سے اسے پھدی کے اندر گھسا دیا اور زورزور سے گھسے مارنے لگا ۔تھوڑی دیر کے بعد امی بھی اپنی بنڈاٹھا اٹھا کر میرے لن کا ساتھ دینے لگیں ۔ان کے اس عمل سے میرے لن میں مزے کی لہریں دوڑ نے لگیں اور میں مزید زور زور سے گھسے مارنے لگا ۔ اور کافی دیر تک ایسے ہی لگا رہا ۔اچانک امی کا جسم اکڑ گیا اور انہوں اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ لیں ۔ مجھے ایسے لگا کہ جیسے امی کی پھدی میں کسی نے پانی کا نل کھول دیا ہے اس کے ساتھ ہی امی کی پھدی نے میرے لن کو زور سے جکڑلیا ۔جس سے مجھے مزید مزا آنے لگا ۔پھر کچھ دیر کے بعد میرا لن بھی پھولنا شروع ہو گیا ۔

اور پھر یکدم میرے لن نے بھی منی کا فوارا امی کی پھدی کے اندر ہی چھوڑ دیا اور مجھے یوں لگا کہ جیسے میری ٹانگوں جان ہی نہیں رہی اوت میں بے سدھ ہو کر امی کے اوپر ہی لیٹ گیا مجھے کچھ ہوش آیا تو میں امی کے سینے پر لیٹا ہوا تھا اور امی میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کر رہی تھیں ۔پھر ہم دونوں نے اپنے جسم صاف کئے ۔اور اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے۔


مکمل تحریر >>

تین بہنوں کے انوکھے مزے

میرا تعلق گوجرانوالہ سے ھے لیکن جب میں پانچ سال کا تھا تو میرے والد صاحب انتقال کر گئے اور گھر کی زمہ داریاں بڑے بھائی پر آگئیں ۔ گھر کے حالات بھت اچھے تو تھے نہیں لہذا جلد ھی بھائی کام کے سلسلے میں فیصل آباد شفٹ ھو گئے۔ دو سال بعد بھائی نے ھم سب گھر والوں کو بھی فیصل آباد شفٹ کر لیا یوں ھم لوگ فیصل آباد کے ھو کر رہ گئے۔ اور کبھی کبھار اپنے عزیزو اقارب سے ملنے گوجرانوالہ کا رخ بھی کرتے اور اپنے5 مرلے کے آبائی گھر کا چکر بھی لگاتے تاکہ اس کی دیکھ بھال ھوتی رھے۔ میٹرک  کے بعد میں بلکل فری تھا تو سوچا کچھ دن گوجرانوالہ رہ لوں۔ چناچہ میں گوجرانوالہ آ گیا ۔فیصل آباد میں رھنے اور کو ایجوکیشن کی وجہ سے میرے اندر کافی اعتماد آگیا تھا جس کی وجہ سے لڑکے ھوں یا لڑکیاں کسی سے بات سے جھجکتا نھی تھا۔ گوجرانوالہ پہنچ کر میری روٹین یہ تھی کہ رات ساری کزنز کے ساتھ موویز دیکھتا رھتا تاش کھیلتا اور دن کو سوتا رھتا۔ ایک دن مجھے دن بارہ بجے آٹھایا اور بولیں نواب صاحب اُٹھیں اور جا کر علی کو، سکول سے لے آئیں۔ علی میرے 7 سال کے بھانجے کا نام ھے جو کہ کزن باجی کے گھر سے تھوڑی دور ایک پرائیویٹ سکول میں ٹو کلاس میں پڑھتا تھا۔میں نے کہا کیوں باجی آج کیا رکشے والے نے نھی آنا جو میری نیند خراب کر رھی ھیں۔  تو وہ بولی نھی رکشے والے کی بیٹی کی شادی ھے اور وہ ایک ھفتہ چھٹی کرے گا اور تب تک آپ نواب صاحب  علی کو سکول سے لائیں گے جبکہ صبح اس کے پاپا اسے سکول چھوڑ دیا کریں گے۔ میں بادل نخواستہ اٹھا اور پیدل ھی سکول کی طرف چل پڑا۔ سکول زیادہ دور نھی تھی بمشکل سات آٹھ منٹ میں سکول پہنچ گیا۔  چھٹی ھونے میں ابھی دس منٹ تھے۔ میں سکول کے پاس ھی ایک شاپ پر بیٹھ گیا اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ تبھی میری نظر دوکان سے تھوڑی دور ایک گلی کی نکڑ پر پڑی۔ جہاں پر ایک لڑکی کھڑی میری طرف دیکھ رھی تھی۔  میں نے ادھر اُدھر دیکھا اور کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ نا پا کر اسی لڑکی کو دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ بھی نکڑ پر کھڑی ادھر اُدھر دیکھتی اور پھر میری طرف دیکھنے لگ جاتی۔ چند منٹ بعد میں نے ھاتھ ھلکا سا ھلا کر اسے اشارہ کیا تو وہ مسکرا کر گلی کے اندر چلی گئی۔ میرا، ارادہ بنا کہ اٹھ کر اس گلی کا، ایک چکر لگانا لیکن اسی وقت سکول کی گھنٹی نے میرا ارادہ ملتوی کروا دیا۔ میں سکول کے گیٹ پر چلا گیا اورچند منٹ بعد ھی علی سکول سے باھر آگیا۔ علی کو لے کر میں گھر کی طرف چلا تو وہ گلی راستے میں ھی آنی تھی۔ میں نے گلی کے سامنے رک کر گلی میں دیکھا تو وہ گلی آگے سے ٹی بن کر لیفٹ اور رائیٹ مڑ رھی تھی جبکہٹی کو سیدھا کراس کر کے دو گھر تھے آگے گلی بند تھی اس کا گھر بلکل سیدھا ٹکر والا تھا اور وہ اس ٹکر والے گھر کے گیٹ پر کھڑی تھی۔ اس نے جیسے ھی مجھے دیکھا مجھے ھاتھ کے اشارے سے بائی بائی کیا اور گھر کے اندر چلی گئی۔ میں بھی علی کو لے کر گھر آگیا ۔ علی کو باجی کے حوالے کر کے میں دوبارہ بستر ہر لیٹ گیا لیکن اب نیند کا کوئی ارادہ نھی تھا۔ میں اس لڑکی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے چونکہ دور سے دیکھا تھا لہذا اس کا چہرہ اچھی طرح نا دیکھ سکا لیکن اس کا جسم بھرا بھرا تھا۔ قد تقریباً پانچ فٹ تھا۔ اب میرا، دل کیا کہ ایک چکر اور باھر کا لگاوں چناچہ ایک بار پھر باھر نکل کر اس کی گلی کی طرف جا رھا تھا۔ اس کی گلی کے سامنے رک کر دیکھا لیکن وہ وھاں نھی تھی اور گیٹ بھی بند تھا۔ میں وھاں سے واپس آگیا اور پی ٹی سی ایل سے کزن کو کال کر کہ کہا کہ میں جاگ گیا ھوں لہذا وہ اپنی بائیک لے کر آجائے تاکہ ھم آوارہ گردی پر نکل سکیں۔ یہ واقعہ 2014 کا ھے خیر کزن  ولید جو میری پھپھوکا بیٹا تھا مجھے پک کرنے آ گیا۔ ھم تین کزن ھم عمر تھے جن کی بھت اچھی دوستی تھی باقی کزن چھوٹے تھے۔ ھم تینوں روزانہ رات کو VCR کرائے پر لاتے اور ھر قسم کی  وہ فلمیں بھی دیکھتے۔ جن میں وہ فلمیں بھی ھوتی تھیں جن میں آواز نھی ھوتی تھیی۔

اگلے دن میں خود ھی علی کی چھٹی سے زرا پھلے گھر سے نکلا اور آج میں رستہ تبدیل کر کے اس ٹی والی گلی سے جا رھا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ آج پھر وھاں کھڑی ھوگی اور ھوا بھی ایسے ھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو میری طرف آگئی اور مسکرا کر سلام کہا۔ میں نے بھی ادھر، ادھر دیکھ کر سلام کیا، اور اس کا نام پوچھا تو بولی میرا نام یاسمین ھے میں نے کہا میرا، نام سلمان ھے ۔ اتنی بات کر کے میں وھاں سے آگے نکل گیا کیونکہ ڈر تھا کوئی دیکھ نا لے۔ یاسمین ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ جسم بھرا بھرا اور ممے 34 سے 36 ھوں گے۔ تب مجھے سائیزوں کا اتنا پتہ نھی تھا،صرف اندازہ ھی تھا۔ میں گلی میں تھوڑا، آگے گیا تو مجھے ایک چھوٹی سی دکان نظر آئی جو، کسی بابے نے صرف بچوں والی گولیاں ٹافیاں رکھی ھوئی تھیں۔ میں جان بوجھ کر، دکان پر کھڑا ھو گیا تو وہ بھی میرے پیچھے چلتے چلتے دکان پر، آئی اور دکان کے اندر گھس کر بابے سے بولی۔ ابا توں گھر جا، تے روٹی کھا کے آ۔ میں دکان تے بھنی آں۔ تب مجھے سمجھ لگی کہ بابا جی اس کا باپ ھے اور بابا مجھے ذھنی طور پر بھی فٹ نھی لگا تھا۔ میں جان بوجھ کر کچھ بچوں کی چیزیں خریدنے لگ گیا۔  بابا اٹھ کر گھر کی طرف چلا گیا اب وہ دکان میں اکیلی تھی۔ دکان کے اندر جانے کا میں رسک لے نھی سکتا تھا کیونکہ بھری دوپہر تھی ۔ باھر کھڑے کھڑے اس سے بات کرنے لگا۔ میں نے کہا کیا تم ھر ایک سے ایسے ھی بات کرتی ھو جیسے مجھ سے کی تو وہ بولی نھی۔ میں نے آپ کو دو تین دفعہ دیکھا اور مجھے اچھے لگے ھو اس لیے آپ سے بات کی۔ مجھے وہ زیادہ پڑھی لکھی نھی لگی شائید سکول کا منہ بھی نھی دیکھا تھا۔ لیکن میں نے اس سے پوچھا نھی کیونکہ میرے لیے اتناھی کافی تھا کہ وہ ایک جوان لڑکی ھے ۔ خیر اس سے باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ تین بھنیں ھیں اور دو بھائی۔ باپ دماغی طور پر ٹھیک نھی تھا۔ دونوں بھائی مزدوری کرتے ھیں۔ ماں باپ کے ساتھ دکان پر بیٹتھی ھے۔ ایک بھین اس سے بڑی 26 سال کی ھے اور دوسری اس سے چھوٹی 17 سال کی۔ اور اسکی عمر 23 سال ھے۔ اتنی دیر میں اسکی ماں آ گئی تو میں دکان سے ھٹ کر سکول کی طرف نکل گیا۔ علی کو واپس لے کر جاتے ھوئے بھی وہ اسی نکڑ پر کھڑی تھی۔  اس نے مجھے ھاتھ سے بائی بائی کیا اور گلی میں چلی گئی۔ اب میں سوچ رھا تھا کہ کسی طرح یاسمین کو ملوں کہیں اکیلے میں لیکن کوئی حل نھی مل رھا تھا۔ اور اس کے ممے مجھے چین نھی لینے دے رھے تھے۔ اگلے چار دن بھی اسی طرح ھلکی پھلکی بات ھو جاتی لیکن کوئی چانس نھی بن رھا تھا۔ پانچویں دن مجھے بھائی نے فیصل آباد بلوا لیا اور میرے خواب ادھورے رہ گئے۔فیصل آباد آکر یاسمین سے رابطہ بلکل ختم ھو گیا کیونکہ نا تو، اس کے گھر میں فون تھا، اور نہ وہ اتنے امیر تھے کہ موبائل فون رکھتے ۔ تبھی ایک دن بڑے بھائی نے مجھے اطلاع دی کہ انھوں نے گوجرانوالہ میں پرانا گھر بیچ کر کزن کے گھر کے پاس ایک کنال کا پلاٹ لیا ھے اور اب اس پر کنسڑکشن کروانی ھے۔ جس کے لیے گھر والے کچھ عرصہ گوجرانوالہ شفٹ ھونے کا سوچ رھے ھیں۔ پھر ایک دن امی اور بھابی کو  لے کر بھائی گوجرانوالہ چلے گئے۔ بھائی کا، ارادہ تھا کہ وہ کزن سسٹر کے گھر کے نزدیک کوئی گھر کرائے پر لے لیں گے اور وھاں رہ کر ھم اپنا گھر بنوا لیں گے۔ میں فلحال فیصل آباد ھی رہ گیا کیونکہ یہاں بھی گھر کو خالی نھی چھوڑا جاسکتا تھا۔ پندرہ دن بعد بھائی نے مجھے سسٹر کے گھر سے کال کی اور کہا کہ ھم نے سسٹر کے گھر کے پاس ایک گھر کرائے پر لے لیا ھے اب تم گوجرانوالہ آ کر مستریوں سے کام کرواو اور میں فیصل آباد واپس آکر اپنی ڈیوٹی کروں گا۔ میں نے بھائی کو کہا کہ میں رات کو، فیصل آباد سے نکلوں گا تو صبح صبح گوجرانوالہ ھوں گا۔ آپ مجھے گھر کا، ایدڑیس سمجھا دیں تاکہ میں سسٹر کی بجائے سیدھا اپنے گھر پہنچوں۔ بھائی نے مجھے ایڈریس سمجھایا تو ایسا لگا جیسے تقدیر مجھ پر مہربان ھو رھی ھے کیونکہ جو ایڈریس بھائی نے بتایا تھا وہ یاسمین کے گھر کے ساتھ والا گھر تھا۔ ایک دم سے یاسمین پھر میرے خوابوں میں آگئی تھی میں شام کو نھانے کے لیے واش روم میں گیا اور یاسمین کے میں کا سوچ کر مٹھ ماری۔ پھر نھانے کے بعد تیار ھو کر  اڈے کے لیے نکل پڑا۔ صبح پانچ بجے میں گوجرانوالہ یاسمین کے گھر کے ساتھ والے گیٹ پر کھڑا تھا

میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بھائی نے دروازہ کھولا۔ میں گھر کا جائزہ لے رھا تھا۔ یہ گھر نا صرف یاسمین کے گھر سے جڑا ھوا تھا بلکہ گھر کے اندر دونوں گھروں کے درمیان ایک پانچ فٹ اونچی دیوار تھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ یا تو دونوں گھروں کا ایک ھی مالک ھے یا رشتہ دار ھیں۔ دروازے سے اندر داخل ھوتے ھے  دائیں طرف ایک بیٹھک اور بائیں طرف باتھ روم بنا ھوا تھا اس کے بعد کافی کھلا صحن تھا پھر دائیں طرف کچن اور سامنے ٹکر پر دو کمرے بنے ھوئے تھے۔ میرے آنے سے امی اور بھابی بھی اٹھ گئی تھیں۔ انھوں نے مجھے ناشتہ بنا کر دیا جس کے بعد میں بیٹھک میں جا کر سو گیا کیونکہ ساری رات جاگا ھوا تھا۔ دوپہر کو آنکھ کھلی تو اٹھ کر باتھ روم میں نہانے چلا گیا۔ نھا کر باھر نکلا ۔تو ایک نیا چہرہ نظر آیا جو کہ سامنے کمرے میں بیٹھ کر مشین پر کوئی کپڑا سی رھی تھی ۔ لڑکی خوبصورت تھی اور جسم بھی یاسمین کی طرح ھرا بھرا تھا۔ میں کمرے میں آیا تو اس نے مجھے سلام کیا میں جواب دے کر امی کے پاس چارپائی پر بیٹھ گیا۔ امی نے بتایا کہ بھائی فیصل آباد چلا گیا ھے۔ کل سے مستری مزدور آ جائیں گے اور تم وھیں پر کام کی نگرانی کرو گے۔ بھابی کچن میں کھانا بنا رھی تھی۔ مجھے تجسس تھا کہ یہ لڑکی کون ھے۔ اس لیے بھابی کے پاس چلا گیا اور پوچھا بھابی یہ کون ھے۔ بھابی نے میری طرف شک بھری نظروں سے دیکھا اور کہا خیر ھے ۔ میں نے کہا بھابی ویسے ھی پوچھ رھا ھوں ۔ بھابی نے یاسمین کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ساتھ والا گھر مالک مکان کے بھائی کا ھے اُن کی بڑی بیٹی ھے نام کلثوم ھے اور میرے کپڑے سی رھی ھے۔ میں کچن سے نکلا اور دوبارہ امی کے پاس بیٹھ گیا اور کلثوم کو دیکھنے لگا۔ وہ بھی سمجھ گئی تھی کہ میں اسے دیکھ رھا، ھوں اس لیے بار بار مجھے دیکھتی اور پھر کپڑے سینے لگ جاتی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اسے اشارہ کیا، تو وہ مسکرانے لگی۔ لائین کلیئر دیکھ کر میں نے اسے آنکھ ماری تو اس نے بھی مجھے آنکھ مار دی۔ میرے دل میں تو شادیانے بج رھے تھے کیونکہ یاسمین پھلے ھی سیٹ تھی اور اب اسکی بڑی بھین بھی پورا، ریسپونس دے رھی تھی۔ بھابی نے مجھے کھانے کے لیے آواز دی تو میں دوسرے کمرے چلا گیا۔ دل میں سوچ رھا تھا کہ یہ دونوں بھنیں اتنی جلدی سیٹ ھو رھی ھیں خیر ھی ھو۔ کھانے کے درمیان ھی یاسمین اپنی بہن کو بلانے آ گئی اور مجھے دیکھ کر حیران ھوئی میں نے بھی موقع دیکھ کر اسے آنکھ ماری وہ مسکرا کر دوسرے کمرے میں کلثوم کے پاس بیٹھ گئی۔ میں بھی اسی کمرے میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا لیکن دھیان میرا دونوں بہنوں کی طرف ھی تھا۔ کلثوم نے یاسمین کو ڈانٹ کر گھر بھیجا تو، وہ گیٹ سے جانے کی بجائے اندرونی دیوار کے پاس بجری پڑی تھی وھیں سے دیوار پھلانگ کر چلی گئی۔  تھوڑی دیر بعد امی کسی کام سے سسٹر کے گھر چلی گئی اور بھابی اپنے کمرے میں کپڑے پریس کر، رھی تھیں۔ میں نے موقع دیکھ کر کلثوم سے باتیں شروع کر دیں۔ وہ بھی پڑھی لکھی نھی تھی لیکن دونوں بہنیں بھت فاسٹ تھیں۔ شائید دونوں کو چدوانے کا شوق تھا ورنہ لڑکیاں اتنی جلدی فرینک نھی ھوتیں۔ خیر جو بھی تھا مجھے پکی پکائی دو دو چپڑی ھوئی مل رھی تھیں۔ چند منٹوں میں ھی کلثوم بلکل فرینک ھو گئی تھی بلکہ یہ کہنا پڑے گا کہ یاسمین سے بھی زیادہ کلثوم تیز تھی۔ تبھی بھابی کمرے میں آگئی شائد کپڑے پریس ھو گئے تھے ۔ بھابی میری بہت اچھی دوست بھی تھیں اور میں اپنے رومانس اکثر ان سے شئر کرتا رھتا تھا۔لیکن وہ مجھے ڈانٹتی اور سمجھاتی رھتی تھیں لیکن انھوں نے کھبی بھی بھائی سے میری کوئی شکائت نھی کی۔ مجھے کلثوم سے باتیں کرتا دیکھ کر انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا لیکن میں بھی ڈھیٹ بن کر بیٹھا رھا۔ تھوڑی دیر میں کلثوم نے کپڑے سی لیے اور بھابی کو دیئےاور کہنے لگی بھابی آپ ایک دفعہ پہن کر چیک کر لیں۔ بھابی نے کپڑے پکڑے اور اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔ موقعہ مناسب تھا میں نے آگے بڑھ کر کلثوم کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ جیسے پہلے ھی تیار تھی اس نے آگے بڑھ کر مجھے جھپی ڈال لی۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کو، اوپر اٹھایا اور اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں پر رکھ دئیے۔ اس نے بلکل مزاحمت نھی کی بلکہ میرا ساتھ دے رھی۔ اب میں اس کو کس بھی کر رھا تھا اور میرے ھاتھ اس کے مموں کو دبا رھے تھے۔ چند منٹ بعد میں نے اسے پیچھے ہٹا دیا کیونکہ بھابی کسی بھی وقت آسکتی تھیں۔ کلثوم بولی رات کو بیٹھک  میں سونا اور دروازہ کھلا رہنے دینا۔ میں پورے بارہ بجے آوں گی۔ میں انتظار کروں گا۔ یہ کہ کر میں جان بوجھ کر کمرے سے باھر آگیا کیونکہ میرے دل میں چور تھا، اور میں نہی چاہ رھا تھا کہ بھابی کو شک ھو جائے۔ میں بیٹھک میں آکر بیٹھ گیا اور ڈیک پر گانے لگا لیے۔

دوبارہ جب میں بیٹھک سے نکلا تو کلثوم اپنے گھر چلی گئی تھی اور بھابی کہیں جانے کی تیاری میں تھی۔ بھابی نے مجھے دیکھا، اور بولی چلو مجھے اماں کے گھر چھوڑ آو اور شام کو لے آنا۔ میں گلی میں جا کر رکشہ لے آیا اور بھابی کو اُن کے میکے چھوڑنے کے بعد بازار کی طرف چلا گیا۔ میرا دل تھا کہ مارکیٹ سے کنڈوم خرید لوں ۔ یہ سوچ کر ایک دوست کی دکان پر جا کر کنڈوم خریدے۔ اب میں نے موقع غنیمت جانا اور دوبارہ گھر کا، رخ کیا کیونکہ گھر خالی تھا تو شائد ایک بار پھر موقعہ مل جاتا۔ گھر پہنچ کر میں نے جان بوجھ کر، دروازہ زور سے کھولا تاکہ ھمسائیوں تک آواز جا سکے۔ اور یہ ہی ھوا تھوڑی دیر بعد یاسمین نے دیوار سے جھانکا تو میں صحن میں چارپائی پر لیٹا تھا۔ میں نے اسے اشارہ کیا تو وہ دیوارسے ھمارے صحن میں آ گئی۔ میں اٹھ کر اندر کمرے میں آگیا کیونکہ ڈر تھا کہ ھمسائیوں میں سے کوئی دیکھ نہ لے۔  اندر داخل ھو کر پہلے میں نے کلثوم کے بارے میں پوچھا کیونکہ اگر وہ آ گئی تو یاسمین چلی جائے گی بلکہ دونوں چلی جائیں گی۔ یاسمین نے بتایا کہ ککثوم اور امی کسی رشتےدار کے گھر فوتگی پر گئی ھوئی ھیں اور شام کو آئیں گی۔ گھر پر صرف ابا اور چھوٹی بہن رجو ھے۔میں نے اسے کھینچ کر گلے سے لگا لیا۔ اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں پر رکھ دئیےاور اس کی کمر پر ھاتھ پھیرنے لگا۔ وہ بھی پوری طرح ساتھ دے رھی تھی۔ یاسمین کاجسم کلثوم کے مقابلے میں زیادہ بھرا ھوا تھا اور اس کے ممے بھی کافی بڑے تھے شائد 36 سائز تھا۔  کمر پر ھاتھ پھیرتے ھوئے میرا ھاتھ اس کے ھپس پر لگا تو وہ بھی کافی بڑے تھے۔ یاسمین کی کسنگ بتا رھی تھی کہ وہ اس کام میں ایکسپرٹ ھے۔ میں نے ھاتھوں سی اس کے بُنڈ دبا کر اسکی چوت کو اپنے لن کے ساتھ جوڑا میرا شیر تو پہلے ھی تیار کھڑا تھا یاسمین نے بھی بلاتکلف اپنی چوت کو میرے لن پر رگڑنا شروع کر دیا۔ میں نے اسکی قمیض کو اوپر کیا اور اسکے ممے کھینچ کر برا، سے باھر نکالے۔ اس کے ممے تو جیسے پہلے ھی آزاد ھونے کے لیے بےچین تھے۔ اس کےپنک کلر کےنپل بھی بہت بڑے تھے۔ میں نے انھیں منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ میری کوشش تھی کہ پورے منہ میں لے لوں لیکن ان کا سائز میرے منہ سے کہیں بڑا تھا۔ میں باری باری دونں مموں کو چوستا کبھی ان پر ھلکے ھلکے دانتوں سے کاٹتا تو وہ تڑپ جاتی۔ اب اس نے خود ہی میرے لن کو شلوار کے اور سے پکڑ کر اپنے پھدی پر رگڑنا شروع کر دیا اور میرے لن کا بھی بس نہی چل رھا تھا کہ اسکی شلوار پھاڑ کر اندر گھس جائے۔ میں نے اس کے مموں کو چھوڑ کر اسکی قمیض اور پھر برا بھی اتار دی۔ لیکن وہ ابھی تک میرے لن کو ھاتھ میں پکڑے شلوار کے اوپر سے مسل دھی تھی۔ میں نے اسکی بے چینی محسوس کرتے ھوئے شلوار کا ناڑا کھول  کر شلوار نیچے کی اور اپنا لن اسکے ھاتھ میں پکڑا دیا۔ وہ اب اور مستی اور زور سے مسل رھی تھی۔ میں نے اسے پکڑ کربھابی کے بیڈ پر بیٹھا دیا اور لن اس کے پاس ھاتھ میں پھر سے پکڑا دیا۔ اس نے میرے لن کو غور سے دیکھا اور بڑے پیار سے مسلنے لگی۔ میں نے کیا یار اس کو تھوڑا پیار کرو بیچارا کتنے مہینوں سے تمھارے لیے تڑپتا ھے اور لیک ھوتا ھے۔ وہ میری بات سن کر مسکرائی اور بولی چل فیر اج ایدا، انتظار ختم کروائیے۔ اتنا کہ کر اس نے میر لن کی ٹوپی پر پیار کیا اور بولی یار ھے بڑا وڈا تے ملائم۔ میں نے کہا تے فیر انوں پیار کر کے ھور ملائم کر تا کہ اے تیری تلے لگی اگ نوں بجھا سکے۔ میری بات سن کر اس نے میرے لن کی ٹوپی کو منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی ۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے شراب پی لی ھو ایسا نشہ کہ بیان نھی کر سکتا۔ میں نے اس کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر دبایا تو میرا لن آدھے سے زیادہ اس کے منہ میں تھا۔ پھر وہ خود ھی پورا، منہ میں لے کر چوستی کبھی آگے پیچھے کرتی اور کھبی منہ کے اندر روک کر اس پر گولمول زبان پھیرتی۔ میرا لن پھٹنے والا ھو رھا تھا جب اچانک کمرے کا، دروازہ ھلجا سا کھٹکھا۔ دروازے کی آواز، سن کر جیسے میری جان نکل گئی ھو اس نے بھی ایک دم سے منہ پیچھے ھٹایا اور پریشان ھوگئی۔ اتنا مجھے یاد تھا کہ میں نے گیٹ کو لاک کیا تھا اس لیے یہ جو کوئی بھی ھے یاسمین کے گھر سےدیوار پھلانگ کر آیا ھے۔میرا، دماغ گھوم رھا تھا ۔

 

 

 

 

 

خوف اور بےعزتی کے ڈر سے میرا لن بھی ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ میں نے اپنی آواز کو ایسے بنایا جیسے میں سو رھا تھا جو، دروازہ کھٹکنے کی وجی سے اٹھا ھوں اور آرام سے پوچھا کون۔ تب باھر سے ایک ھلکی سی نسوانی آواز آئی اور میرے بجائے یاسمین کو مخاطب کر کے بولی باجی ابا بلاندا پیا ای۔ گھر آ۔ یہ آواز سن کر یاسمین کی جیسے جان میں جان آگئی ھو اس نے زور سے سانس لی اور مجھے ریلکس ھونے کا اشارہ کیا اور بولی رجو توں گھر جا میں 5 منٹ وچ آندی آں۔ مطلب رجو تم گھر جاو میں پامچ منٹ میں آتی ھوں۔ھالا جلدی آ ابا رولا پایا ھویا ای۔ مطلب۔ اچھا جلدی آ ابو نے شور مچایا ھوا ھے پھر مجھے کسی کے دروازے سے دور جانے کی آواز آئی ۔ یاسمین نے جلدی سے کپڑے پہننے شروع کر دئیے تو میں نے اسے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا یار اسے ایسے تو نا چھوڑ کر جاو۔ وہ بولی نہی یار پھر سہی ابھی اپنے ھاتھ سے گزارہ کر لو۔ وہ کپڑے پہن چکی تو میں نے بھی شلوار اوپر کر لی اور اس سے پوچھا رجو گھر جا کر ابے کو کچھ بتاتو نا دے گی۔ وہ ھنس کر بولی ابے کو، اتنا ھوش نھی ھوتا اور رجو کو میں بتا کر آئی تھی تاکہ وہ ابے کا خیال رکھے۔ ابھی جا کر رجو کو 100 روپیہ دینا ھے وہ میری رازدار ھے بس تم کہیں کلثوم کو نا بتا دینا ورنہ وہ ھم دونوں کی جان لے لے گی۔ میں نے کہا میرا کلثوم سے کیا تعلق اورمیں کیوں اسے بتاوں گا۔ تو وہ بولی میں نے دن کو تم دونوں کو اشارے کرتے دیکھ لیا تھا اور ویسے بھی وہ تم سے ضرور چدوائے گی کیونکہ اس کی پھدی میں تندور لگا ھوا ھے جس کی آگ بجھتی ھی نھی۔ میں ھنس کر بولا تو تم کیا چاھتی ھو میں اس کی آگ بجھاوں یا رھنے دوں۔ وہ بولی مجھے کیا تم بجھاو یا نا بجھاو بس میرے بارے میں اسے پتہ نہ چلے۔ اتنا کہ کر اس نے دروازہ تھوڑا سا کھولا اور باھر جھانکا۔ پھر بڑی تیزی سے باھر نکل گئی اور میں اپنا لن ھاتھ میں پکڑے کھڑا رہ گیا۔ مجھے رجو پر غصہ آ رھا تھا جس نے آخری لمحات میں ٹانگ اڑا کر میرا سارا مزا خراب کر دیا تھا۔ کلثوم نے بتایا تھا کہ رجو سترہ سال کی انکی سب سے چھوٹی بہن ھے۔ اور اب آواز سے بھی وہ اتنے کی ھی لگ رھی تھی لیکن میں نے اسے دیکھا نہی تھا اور اس وقت میرا، دل کر رھا تھا کہ کلثوم اور یاسمین سے پہلے رجو کو چودوں لیکن فلحال ایسا ھو نھی سکتا تھا۔ میں کمرے سے نکل کر باتھ روم میں آگیا، اور ہاتھوں سے لن کو ٹھنڈا کرنے لگا۔ دوستوں کو یہ بتاتا چلوں کہ یاسمین اور کلثوم سے میری بات پنجابی میں ھی ھوتی تھی آپ لوگوں کی آسانی کے لیے اسے اُردو میں لکھ رھا ھوں۔ باتھروم سے فری ھو کر میں بیٹھک میں آ کر گھڑی پر ٹائم دیکھا تو شام کے پانچ بج رھے تھے مجھے بھابی کو بھی لینے جانا تھا اور امی کو بھی سسٹر کے گھر سے لانا تھا۔  اس لیے میں گھر کو لاک کر کے بھابی کو لینے چلا گیا۔ شام کا کھانا بھابی کے میکے سے کھایا اور واپس گھر پہنچتے ھوئے سات بج گئے۔ پھر  آدھے گھنٹے میں جا کر امی کو بھی لے آیا۔ یہاںً لوگ جلدی سو جاتے ھیں  اسی لیے امی اور بھابی بھی جلد ھی اپنے کمروں میں سوگئے۔ میں بیٹھک میں لیٹا ڈیک پر ھلکی آواز میں گانے کو سن رھا تھا۔ ساڑھے گیاہ بجے مجھے ایسا لگا جیسے کوئی دیوار پھلانگ کر آیا ھو۔ میں نے باھر صحن میں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہی آیا امی اور بھابی کا دروازہ بھی بند تھا۔ واپس مڑ کر بیٹھک میں جانے لگا تو باتھروم میں چھپی کلثوم نظر آگئی وہ جلدی سے میرے ساتھ ھی بیٹھک میں آ گئی اور دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔ اور اپنے سینے پر ھاتھ رکھ کر زور زور سے سانس لینے لگی۔ میں اسے دیکھ کر مسکرا رھا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ وہ بھی میرے سینے سے لگ کر مجھے زور زور سے بھینچنے لگی۔ میں نے اس کے منہ کو پکڑ کر اوپر اٹھایا اور اس کے ھونٹوں کو چوسنے لگا۔ وہ بارابر میرا ساتھ دے رھی تھی۔ میرے ھاتھ اس کے مموں کو دبا رھے تھے۔ میں نے قمیض کے نیچے سے ھاتھ اندر لے جا کر اس کے مموں پر رکھ دئیے تو مجھے پتہ چلا کہ اس نے برا نہی پہنی ھوئی۔ میں زور زور سے اس کے ممے مسل رھا تھا اور وہ مست ھوتی جا رھی تھی۔ اب میں نے ھاتھ اس کے پیٹ پر پھیرتے ھوئے اس کی شلوار میں گھسا دیا اور سیدھا اس کی پھدی ہر جا کر رگڑا اس نے نیچے انڈر وئیر بھی نھی پہنا ھوا تھا اور پھدی کے اردگرد جتنی ملائم جگہ تھی وہ بتا رھی تھی کہ ککثوم پوری تیاری کر کے اور نیچے سے صفائی کر کے آئی تھی

[شلوار کے اندر ھی اسکی پھدی کو مسل رھا تھا اور آپ یقین مانیں کہ اسکی پھدی بہت زیادہ گرم ھو کر پانی چھوڑ رھی تھی۔ اس نے خود ھی میرا ناڑا کھول کر میری شلوار کو نیچے گرا دیا۔ میرا لن جو پہلے ھی تیار ھو چکا تھا جھٹکا کھا کر شلوار سے باھر نکلا۔ کلثوم نے میرے لن کو ھاتھ میں پکڑ کر اسے ھلکا سا دبایا اور اسکی لمبائی موٹائی کا، اندازہ لگایا اور بولی کیا بات ھے یار آج تو مزا آئے گا کافی بڑا، اور جاندار لن ھے۔ کیا کھلاتے ھو اسے ؟ میں ھنسا اور کہا یہ جتنا بھی جاندار ھو تمہاری چوت نے اسے دبا کر مار ھی دینا ھے۔ وہ بولی ھاں یہ تو ھے۔ آج میں اسے ایسا نچوڑوں گی کہ تم یہ مزہ زندگی بھر نھی بھولو گے۔ میں نے کہا پھر سوچ کیا رھی ھو نچوڑ دو اسے۔ وہ بولی ایسے نھی تم ادھر میٹریس پر لیٹ جاو پھر میرا کمال دیکھو۔ بیٹھک میں بھابی نے ایک صوفہ رکھا ھوا تھا، اور ایک میٹریس کارپٹ پر بچھایا ھوا تھا۔ ۔ میں اسے پکڑ کر میٹریس پر لیٹ گیا تو، اس نے خود ھی اپنی شلوار اور قمیض اتار دی۔ اور میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میرے لن کو بڑے پیار سے مسل رھی تھی۔ پھر اس نے جھک کر میرے لن کو اپنے مموں کے درمیان پھنسا کر رگڑنا شروع کر دیا۔ میری بہت سی لڑکیوں سے دوستی رھی ہے لیکن یقین مانیں کلثوم بھت زیادہ ٹرینڈ تھی اور چدوانے کی شوقین بھی۔ وہ ایسی لڑکی تھی کہ اگر اس کا بس چلے تو نان سٹاپ چدواتی رھے اور تھکے نا۔ اہسا لگتا تھا جیسے سالی نے انگلش فلموں کو رٹا لگا کر یاد کیا ھوا تھا۔ وہ اپنے مموں میں بڑے طریقے سے پھنسا کر اوپر نیچے کر رھی تھی اور مجھے ھلنے سے منع کر، رھی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ سانس لینے کے لیے رکی اور بولی بتاو مزہ آ رھا ھے یا اور مزہ دوں ۔ میں نے کہا یار آج اپنا سارہ ٹیلنٹ دیکھا دو۔ وہ ھنسی اور بولی اچھا جی تو پھر دیکھو میرا ٹیلنٹ۔ اتنا کہنا تھا کہ اس، نے میرا لن اپنے منہ میں لے لیا۔ وہ بڑے طریقے سے میرے لن کو چاٹ رھی تھی کبھی فل منہ میں حلق تک لے جاتی اور کبھی منہ سے نکال کر زبان سے ٹوپی چاٹنا، شروع کرتی اور نیچے تک جاتی پھر میری ٹوپی کے منہ کو کھول کر اپنی زبان اس کے اندر گھسانے کی  ناممکن کوشش کرتی اور اسکی یہ کوشش میری جان نکال رھی تھی۔ میں جو یہ سمجھتا تھا کہ میں جلدی ڈسچارج نھی ھوتا اب میرا لن پھٹنے پر آیا ھوا تھا۔ میں نے زبردستی اپنے لن کو پکڑ کر اسے روکا، اور کہا یار مجھ سے برداشت نھی ھو رھا میں ڈسچارج ھو جاوں گا۔ وہ ایک بار پھر مسکرائی اور بولی میں بھی تو وہی کوشش کر رھی ھوں۔  یار میں تمہارے منہ یں ڈسچارج ھو جاوں گا وہ کہنے لگی تو ھو جاو نا روکا کس نے ھے۔ یہ سننا تھا کہ میں نے اپنا ھاتھ لن سے ھٹا لیا۔ ایک بار پھر اس نے پورا لن حلق تک منہ میں لے کر مزید زور سے چوسنا شروع کر دیا۔ اب وہ ھلکا، سا زبان بھی میرے لن ہر مارتی تو میری جان نکل جاتی۔ لیکن اب وہ میرے لن کو منہ سے نکال نھی رھی تھی بلکہ اندر ھو اس کو جھٹکے دے رھی تھی اور پھر میرا ضبط جواب دے گیا اور پہلی دفعہ میں ایک لڑکی کے منہ میں ڈسچارج ھو رھا تھا۔ جیسے ھی میرے لن کو جھٹکا لگا اس نے اپنے ایک ھاتھ سے میرے لن کو زور سے پکڑ کر منہ کے اندر ایسے دبا لیا جیسے ڈر ھو کہ میں لن منہ سے نکلتے ھی بھاگ جاوں گا۔ میں مسلسل ڈسچارج ھو رھا تھا اور مجال ھے کے اس نے میرے لن کو منہ سے نکالا ھو بلکہ میرے لن کے ھر جھٹکے کے ساتھ اس کے منہ اور ھاتھ کی سپیڈ بڑھ جاتی۔ میں شائد ھی کبھی اتنا ڈسچارج ھوا ھوں جتنا کلثوم کے منہ نے کروا، دیا تھا۔ اب مجھے لن پر گد گدی محسوس ھوتی تھی چنانچہ میں نے زبردستی اسے روکا تو اس نے میرے لن کو چھوڑ کر مسکراتے ھوئے مجھے دیکھا ۔ اس کا منہ میری منی سے برا ھوا تھا۔ اس نے منہ صاف کرنے کے لیے ادھر ادھر دیکھا لیکن کچھ نظر نھی آیا۔ تب میں نے میٹریس کے نیچے سے اس کپڑا نکال کر دیا جو میں نے شام کو، احتیاطاً چھپایا تھا، اور کپڑے کے ساتھ ھی کنڈوم کا پیکٹ بھی نکل آیا

کلثوم  نے کنڈوم کا پیکٹ اٹھایا اور بولی چلو ایک کنڈوم کی تو بچت ھو گئی۔ اس نے پیکٹ کو کھولا تو اندر سے کنڈوم کے ساتھ اسی برینڈ کی کریم تھی ۔اس، نے پوچھا یہ کس لیے ھے تو میں نے کہا یہ ٹائم بڑھاتی ھے اور جلدی ڈسچارج نھی ھونے دیتی۔ واہ یار یی تو بڑے کمال کی چیز ھے پھر۔ میں نے کیا ھاں ھے تو کمال کی لیکن اس کے لگانے کے بعد تم اس کو سک نہی کر سکو گی اور جو مزہ تمہاری سکنگ نے دیا ھے وہ تو کنواری چوت بھی نہی دے سکتی۔ وہ مسکرا کر میرے نذدیک ھو گئی اور ایک بار پھر میرے لن کو پکڑنے لگی لیکن اس بار میں نے اسے کھینچ کر لٹا دیا اور اس کے مموں کو چوسنا شروع کر دیا۔ اس کے ممے بھی بڑے تھے لیکن یاسمین سے چھوٹے۔  میں اس کے مموں کو کاٹتا، تو وہ تڑپتی۔ میں کبھی اسکی گردن پر تو کبھی چہرے اور مموں کو چوستا۔ چونکہ دوسری باری تھی تو میرا شیر بھی آرام سے اٹھ رھا تھا اور یہ میں جانتا تھا کہ دوسری باری میں میرا سٹیمنا غیر معمولی طور پر زیادہ ھو جاتا تھا۔ اور جو کریم میرے پاس تھی وہ بھی آزمودہ تھی۔ اب میں کلثوم کو ٹف ٹائم دینا چاھتا تھا۔ اس لیے میرا، زور کسنگ پر تھا مموں کو چوستے چوستے میں نے زبان سے لکیر بناتا اس کے بیلی بٹن تک جاتا اور پھر اوپر مموں پر جا کر انھیں چوسنا شروع کر دیتا۔ ایک بار زبان پھیرتے پھیرتے میں بیلی بٹن سے نیچے گیا لیکن اسکی پھدی سے زرا اوپر رک گیا۔ وہ میرا سر دبا کر مزید نیچے کرنے کی کوشش کر رھی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ چاھتی ھے کہ میں اسکی پھدی چاٹوں لیکن میں جان بوجھ کر پھر مموں کو چوسنے لگا اور اپنا ایک ھاتھ اس کے چوت ہر رکھ دیا۔ وھاں تو جیسے سیلاب آیا ھوا تھا۔  اس کی چوت فل گیلی ھو چکی تھی۔اور چوت کا پانی اس کی گانڈ تک جا رھا تھا۔ میں نے اسی کپڑے جس سے کلثوم نے منہ صاف کیا تھا اس کی چوت صاف کی اور ھاتھ سے مسلنے لگا۔ چوت کا سائز بتا رھا تھا کہ بہت سوں نے اس کو سیراب کیا ھے۔  میں مسلسل اس کے مموں کو کاٹ رھا تھا، اور میرا دائیاں پورا ھاتھ اس کی چوت میں گھوم رھا تھا۔ پھر میں نےھاتھ اس کی گانڈ پر پھیرا اور ایک انگل اس میں داخل کرنے کی کوشش کی لیکن کلثوم نے گانڈ کو زور سے بھینچ لیا۔  میں نے بھی زور سے اس کے ممے پر کٹا تو اس نے گانڈ ڈھیلی چھوڑ دی اور مجھے تھپڑ مار کر بول آرام سے کرو ناں۔ میں نے کہا اگر اب تم نے گانڈ ٹائیٹ کی تو پھر اور زور سے کاٹوں گا۔ میری بات سن کر اس نے دوبارہ گانڈ ٹائیٹ نہی کی۔ اب میری دو انگلیاں اکھٹی اس کی گانڈ کے اندر باھر حرکت کر رھی تھیں اور مستی میں میرے جسم کو چومتی اور کبھی دانتوں سے کاٹتی۔ اب میرا لن پھر پوری طرح تیار تھا۔ میں نے اپنا لن ایک بار پھر اس کے منہ کے پاس کر کے کہا اسے اچھی طرح گیلا کرو مجھے تمہاری گانڈ مارنی ھے۔وہ بولی یار میری چوت کو بھی تھوڑا پیار کر لو ۔ اب میں 69 کی پوزیشن میں آیا تو اس نے ایک بار پھر میرے لن کو چوسنا شروع کر دیا اور میری زبان اس کی چوت میں حرکت کر رھی تھی۔ چند منٹ بعد میں نے لن اس کے منہ سے نکالا اور سیدھا ھو کر کریم کھول کر اس پر لگانے لگا تو، اس نے کریم میرے ھاتھ سے پکڑ کر خود ھی میرے لن پر لگائی اور اسے ھلکا ھلکا مساج کرنے لگی۔ چند سکینڈ بعد ھی کریم نے اثر دکھایا اور اب مجھے یقین تھا کہ میں لمبی اننگ کھیلنے کے لیے تیار ھوں ۔ میں سیدھا لیٹا ھوا تھا۔ اس نے اپنی چوت کو میرے لن پر ایڈجسٹ کیا اور آہستہ آہستہ نیچے ھو رھی تھی تب اچانک میں نے نیچے سے جھٹکا مارا اور میرا پورا لن اند جا کر اس کی چوت کی دیواروں سے ٹکرایا۔ وہ اچانک جھٹکے سے آگے کی طرف میرے اوپر گری تو میں نے اس کے ممے منہ میں ڈال کر چوسنے شروع کر دئیے اور نیچے سے جھٹکے مارنے لگا۔ اب وہ بھی خود ھی اور نیچے ھو رھی تھی اور نیچے سے میں جھٹکا مارتا تو میرا لن اس کی چوت کی جڑوں تک جا کر لگتا

تقریباً 5 منٹ تک وہ میرے لن پر بیٹھ کر سواری کرتی رہی پھر بول یار سلمان اب تم اوپر آو میں تھک گئیں ھوں۔ میں نے اٹھ کر اسے صوفے پر گھوڑی بنایا اور اپنا لن اسکی گانڈ پر ایڈجسٹ کرنے لگا۔ اس کی چوت سے نکلے پانی سے اس کی گانڈ گیلی کی اور اپنے لن کی ٹوپی اوپر رکھ کر دبانا شروع کی۔جب ٹوپی اندر چلی گئی تو میں سیدھا ھوا اور ایک ھاتھ اسکی کمر پر رکھ اس دبایا تو، اس نے کمر اور نیچے کر لی اور اس کی گانڈ بالکل میرے برابر آ گئی۔ میں نے دو تین بار اپنے لن کی ٹوپی اندر باہر کی اور چوتھی بار پورے زور سے جھٹکا مارا تو پورا لن اس کی گانڈ میں جا چکا تھا۔ اس نے نیچے سے چییخ ماری لیکن شکر ھے وہ اتنی اونچی نہی تھی کہ کمرے سے باھر جاتی۔ میں رک گیا تو وہ بولی یار آرام سے کرو یہ اب روز تمہارے لن کو کھائے گی۔ ساری آج پھاڑ دو گے تو کل کیا کرو گے۔ میں نے ھنس کر کہا جناب پہلےھی محلے والوں نے اسے ادھیڑا ھوا ھے ۔ میں تو پھٹی ھوئ کو پھاڑ رھا ھوں۔ وہ بولی تو کیا کروں مجھ سے گرمی برداشت ھوتی ہوتی اور اماں ابا کو میرا رشتہ نھی مل رھا۔ تم بھی تو چود رھے ھو نا لیکن شادی تونہی کرو گے۔ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر کے لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ اس نے بھی اپنی گانڈ کو جھٹکے مارنا شروع کر دیے۔ تھوڑی دیر بعد اس کے جسم نے اکڑنا شروع کر دیا۔ مجھے سمجھ لگ گئی کہ وہ ڈسچارج ھو رھی ھے۔ میرے جھٹکوں میں مزید تیزی آگئی۔ پھر اس نے ایک دم سے اپنی گانڈ کو فل ٹائیٹ کیا اور اس کی چوت کا پانی صوفے پر گر رھا تھا۔ میرا لن اس کی گانڈ میں پھنسا ھوا تھا وہ ایسے ھی صوفے ہر لیٹ گئی اور میں اس کے اوپر تھا۔ لیکن میرا ابھی ڈسچارج ھونے کے چانسز نھی تھے۔ اس نے میرے لن کو پیچھے ھاتھ کر کے باھر نکالا اور مجھے اوپر سے ھٹا کر سیدھی ھو گئی۔ مجھے اندازہ تھا کہ ڈسچارج ھونے کے بعد وہ چند منٹ لے گی ریلکس ھونے کے لیے۔ میں بھی اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس نے پاس پڑے میز سے پانی کی بوتل اُٹھائی اور منہ سے لگا لی۔ پانی پینے کے بعد ایک بار پھر میں نے اپنا لن اس کے ھاتھ میں پکڑا دیا۔ وہ میرے لن کو زور زور سے جھٹکے دے رھی تھی۔ میں نے اسے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا اور خود صوفے پر بیٹھا رھا۔ وہ میری گود میں آ کر بیٹھ گئی اور مجھے کسنگ کرنے لگی میں نےاپنی زبان اس کے منہ کے اندر کی تو وہ اسے چوسنے لگی۔ مجھے ایسا لگ رھا تھا کہ وہ میری زبان کھا جائے گی۔ آپ لوگ یقین کریں کہ میں نے اس کے بعد بہت سی لڑکیوں سے سیکس کیا ھے لیکن اس کے اند ایک جنونیت تھی سیکس کی۔ اس نے میری گود میں بیٹھے بیٹھے اپنی چوت کو میرے لن پی ایڈجسٹ کیا اور اوپر نیچے ھو رھی تھی۔ چند منٹ بعد میں نے اسے کہا کہ وہ اپنی گانڈ میں لے اس نے ایسے بیٹھے بیٹھے گانڈ میں لینے کی کوشش کی لیکن سہی سیٹنگ نھی ھو رھی تھی ۔ پھر اس نے خود ھی اپنا زاویہ بدلہ اور اب اس نے میری گود میں میری طرف کمر  کر لی اور منہ دوسری طرف کر لیا تو اس کی گانڈ بالکل پرفیکٹ میرے لن پر آگئی۔  اس نے گانڈ کو خود ھی سیٹ کیا اور میرے لن کو پکڑ کر اندر لے لیا۔ اب وہ تھوڑا سا آگے جھکی اور جھکے جھکے اور نیچے ھو رھی تھی۔ میں نے بھی اس کے بازووں کے نیچے سے ھاتھ آگے کر کے اس کے مموں کو پکڑا، اور ان کو دباتا اور نیچے سے اس کی گانڈ میں جھٹکے دیتا۔ دس منٹ بعد جب میں ایک ھاتھ سے اس کے ممے کو اور دوسرا ھاتھ آگے سے اس کی چوت کو مسل رھا تھا تب وہ ایک بار پھر سےمیری گود میں ھی ڈسچارج ھو چکی تھی اس کا گرم گرم پانی میرے ھاتھ پر گرا۔ وہ رک گئی اور بولی یار میں تھک گئی ھوں۔ میں نے کیا یار مجھے تو، ڈسچارج کرواو۔ وہ بولی تم بوتل کے پانی سے اس کو دھو کر کریم کو صاف کرو میں سکنگ کر کے ڈسچارج کروا دیتی ھوں۔ میں نے بوتل اٹھائ اور دروازے کے پاس جا کر لن کو اچھی طرح دھویا۔ جو دوست کریم استعمال کرتے ھیں ان کو پتہ ھو گا کہ کریم سے لن کے پٹھے سن ھو جاتے ھیں جس کے بعد  لن کے اوپر کچھ فیل نھی ھوتا اسی لیے بندہ ڈسچارج بھی نھی ھوتا ۔ میں نے لن کو دھونے کے بعد کلثوم کی قمیض سے اسے ڈرائی کیا اور ایک بار پھر کلثوم کے منہ میں گھسا دیا۔ ایک بار پھر وہ اپنے مخصوص انداز میں سکنگ کر رھی تھی۔ تقریبا ً5ً..6 منٹ کی سکنگ کے بعد ایک بار پھر میرا لن ٹائیٹ ھو رھا تھا۔ کلثوم نے بھی یہ نوٹ کیا تو اس کی سپیڈ اور تیز ھو گئی۔ اور ایکبار پھر میں کلثوم کے منہ میں ڈسچارج ھو رھا تھا۔ اس نے بھی ایک بار پھر میرے لن کو پکڑ کر زور سے اپنے منہ میں دبا رکھا تھا۔ اہسا لگتا تھا جیسے وہ آخری قطرہ تک نچھوڑنا چاھتی ھو۔ میں نے اسے پیچھے ھٹایا اور گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیڑھ بج رھا تھا۔  وہ کپڑے پہننے لگی اور بولی کل کتنے بجے آوں میں نے ھنس کر کہا ادھر ھی رک جاو کیا کرنا ھے جا کر۔ وہ بولی نھی ابا کسی بھی وقت اُ ٹھ کر شور مچا دیتا ھے۔ کل پھر آوں گی۔

 

 

کل پھر آوں گی۔ یہ کہ کر وہ آرام سے دروازہ کھول کر نکل گئی۔ مین بھی تھک چکا تھا، اس لیے دروازے کو، اندر سے لاک کیا اور ننگا ھے لیٹ گیا۔

اگلے دن میں صبح تیار ھو کر  پلاٹ ہر چلا گیا جہاں مستری مزدوروں نے آنا تھا۔ پورا دن سامان ارینج کرنے اور مزدورں کے پیچھے بھاگنے میں نکل گیا۔ شام کو چھے بجے فری ھو کر گھر پہنچا اور کپڑے بھت گندے ھو چکے تھے اور تھکاوٹ بھی ۔ اس لیے فوراً نہانے کے لیے باتھروم میں گھس گیا۔ فریش ھو کر باتھ روم سے نکل رھا تھا جب میری نظر سامنے والی چھت پر پڑی جہاں ایک لڑکی چھت سے دھلے کپڑے اتار رھی تھی۔ دیکھنے میں اس کا قد تقریباً پانچ فٹ ھو گا لیکن اس کی باڈی فزیک بتا رھی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ 17 یا 18 سال کی ھو گی۔  یہ یقیناً رجو تھی کلثوم کی چھوٹی بہن جو اپنے چھت سے کپڑے اتار رھی تھی۔یہ کہنا بے جا نہ ھو گا کہ رجو اُن دونوں سے زیادہ خوبصورت تھی۔میں باتھ روم کے دروازے پر کھڑا ھو کر اسے دیکھنے لگا۔ ایک بار اسکی نظر مجھ سے ملی تو وہ بڑی معصوم سی لگی لیکن مجھے کلثوم اور یاسمین کو دیکھ کر اندازہ ھو چکا تھا کہ جلد یا بدیر یہ بھی اس راہ کی مسافر ھو گی۔اور اُن دونوں سے زیادہ قیامت ڈھائے گی ۔ رجو کو دیکھ کر مجھے ایک دن پہلے والا وقعہ بھی یاد آگیا۔ اگر تب رجو نہ آتی تو میں یاسمین کو چود چکا ھوتا۔ اور یاسمین کا سوچتے ھوئے میرا لن کھڑا ھو رھا تھا۔ میں نے باتھ روم سے باھر دیکھا تو، صحن میں کوئی نھی تھا۔  میں نے رجو کو اشارہ کیا تو وہ  ھنسنے لگی۔ میرا لن تو پہلے ھی کھڑا ھو، رھا تھا میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے لن کو ھاتھ سے اوپر نیچے کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر رجو اور ھنسی اور کپڑے اُٹھائے نیچے چلی گئی۔ میں کمرے کی طرف گیا تو بھابی اور امی کچن میں نظر آئیں۔میں کپڑے بدل کر کچن میں آگیا اور امی اور بھابی سے سارے دن کے کاموں کے بارے میں بات کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد گیٹ کھڑکا تو، میں اُٹھ کر گیٹ کھونے چلا گیا۔ باھر دیکھا تو رجو ھاتھ میں پلیٹ پکڑے کھڑی تھی اور اس کے پیچھے کلثوم کھڑی تھی۔ میں ایک سائیڈ پر ھو گیا اور وہ دونوں اندر آگئیں ۔ کلثوم نے میرے ہاس سے گزرتے ھوئے مجھے ھاتھ مارا میں نے کچن کی طرف دیکھا وھاں کوئی باھر نھی رجو پلیٹئں پکڑے کچن کی طرف جا رھی میں نے کلثوم کا ھاتھ پکڑ کر ھلکا سا موڑا اور پھر چھوڑ دیا۔ میرے دل میں رات والا وقعہ کی وجہ سے چوع تھا، اس لیے میں کلثوم کے پیچھے کچن میں جانے کی بجائے بیٹھک میں آگیا۔ لیکن چند منٹ بعد ھی رجو بیٹھک میں آگئی اور بولی بھائی  باجی کلثوم پوچھ رھی ھے آپ کے پاس سونونگم کے نئے گانے ھیں ۔ میں نے نے کہا ھاں کافی کیسٹس پڑی ھیں تم دیکھ لو کون سے چاھئں ۔ میری بات سن کر وہ ڈیک کے پاس چلی گئی میں بھی اس کے پاس گیا اور موقع دیکھتے ھوئے اسے پکڑ کر سینے سے لگا لیا وہ زور زور سے اپنا آپ چھڑا رھی تھی۔  لیکن میں نے زبردستی اسےگالوں پر کس کر دی وہ بولی بھائی نہ کریں آپی آ جائے گی۔ میں نے اسے چھوڑ دیا وہ پھر سے کیسٹ ڈھونڈنے لگی۔ میں نے اپنی جیب میں ھاتھ مارا اور سو روپیہ نکال کر رجو کو پکڑا دیا۔ اور کہا یہ رکھ لو کچھ کھا لینا۔ اس نے سو روپیہ مٹھی میں دبایا اور ایک کیسٹ پکڑ کر جلدی سے باھر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں بہنیں گھر چلی گئیں۔ میں نے بھی کھانا کھایا اور بازار چلا گیا۔ مجھے ٹائمنگ کی گولیا لینی تھی کیونکہ پچھلی رات جس طرح کلثوم نے سکنگ کی تھی میں چاھتا، تھا کہ وہ آج بھی ویسے ھی کرے اور لن پر کریم لگا کر ایسا نھی ھو، سکتا تھا اس لیے گولیاں ضروری تھیں۔  رات بارہ بجے کلثوم ایک بار پھر میرے ساتھ بیٹھک یں موجود تھی لیکن آج میں پہلے سے تیار تھا۔ کلثوم سے مل کر ایک بات سمجھ آگئی تھی کہ وہ بھت فاسٹ اور بے باک لڑکی ھے۔ اس کی عمر کی لڑکیوں کی شادی ھو کر بچے بھی ھو چکے ھوتے ھیں۔ لیکن وہ کنواری تھی اور جس عمر میں تھی اس میں سیکسول ڈیزائر بھت زیادہ ھوتی ھیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ روزانہ رات کو مقررہ ٹائم پر پہنچ جاتی تھی۔  اس کی فیملی بھی کافی غریب تھی اور شائد یہ بھی ایک وجہ تھی اس کے کنوارے رھنے اور سیکس ایڈکشن کی۔ وہ جیسے ھی کمرے میں داخل ھوئ مجھ سے ایسے لپٹی جیسے سالوں بعد ملی ھو۔ میں نے اسے گلے لگایا اور اس کی کمر پر ھاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور ساتھ ھی اسے فرنچ کس کرنا، شروع کر دی۔ اس نے بھی اپنی روایتی تیزی دیکھاتے ھوئے مجھے زور سے بھینچا اور اپنا، ایک ھاتھ سے میرا لن پکڑ کر لیا۔ وہ بیچارہ تو پہلے ھی قید سے آزاد ھونا چاھتا تھا۔ کلثوم کا ھاتھ لگتے ھی بے قابو ھونے لگا۔  اس کی بے چینی محسوس کر کے کلثوم۔نے خود ھی میرے ٹراوزر نیچے کر دیا اور ھاتھ میں پکڑ کر اس کو مسلنے لگی۔ اس کس کرتے کرتے میں صوفے پر بیٹھ گیا، اور وہ میری خود ھی شلوار اتار کر میری جھولی میں بیٹھ چکی تھی۔

میں نے اس کی قمیض اتاری اور اس کے ممے منہ میں لے کر چوسنا شروع کیے۔ وہ اپنے مموں کو دھکا دے کر پورے میرے منی میں ڈالنے کی کوشش کرتی اور تھوڑی دیر بعد وہ میری گود سے نکل کر بولی اج تو تم کافی کام کر کے آے ھو تھکے نھی۔ میں نے کیا تھک تو گیا ھوں لیکن تمھاری سکنگ ٹکنے نھی دے رھی وہ بولی اچھا یہ بات ھے تو پھر آپ  آرام سے لیٹو اور مزے لو یہ کہ کر اس نے مجھے صوفے ہر ھی لیٹا دیا اور خود صوفے پر بیٹھ کر میرے لن کو مساج کرنے لگی۔  پھر اس نے ٹوپی کو منہ میں لیا اور لولی پوپ کی طرح چوپا لگاتی اس کا چُوپا اتنا زبردست تھا کہ مجھے لگتا کہ شائد گولیوں کا، اثر بھی بےکار جائے۔ کبھی وہ لن کے سوراخ پر زبان پھیرت اور زبان کو سوراخ کے اندر لے جانے کی کوشش کرتی تو کبھی زابان پھیرتے پھیرتے ٹٹوں تک جاتی اور انھیں اپنے منہ میں لییتی پھر ایسے ھی زبان پھیرتے پھیرتے ٹوپی تکی آتی ۔ تقریباً دس منٹ تک سکنگ کے بعد اس نے ایک تکیہ میری کمر کے نیچے ایسے رکھا کہ میرا لن خود بخود اوپر ھو گیا۔  وہ میرے اوپر آ گئی میں سمجھا کہ وہ اپنی پھدی ﺳﯿﭧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﻭﮨﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﮭﺪﯼ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﮍﮐﮯ ﺗﻨﮓ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮬﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﮬﻨﺴﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﻧﮭﯽ ﯾﺎﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮭﯽ ﺗﻮ، ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﮭﺪﯼ ﺍﺏ ﭘﮭﺪﺍ ﺑﻦ ﭼﮑﯽ ﮬﯽ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﺍﻣﺎﮞ ﺍﺑﺎ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺗﯽ ﻧﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﻧﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﮬﻨﺴﺎ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﺍ ﺷﻮﮬﺮ ﺍﺱ ﭘﮭﺪﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺼﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮬﯽ ﮬﻮﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﻧﮭﯽ ﮬﻮ ﮔﺎ۔ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﮭﺪﺍ ﻧﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﺖ ﮬﻮ ﮔﺎ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻮﺳﻨﺎ ﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﯽ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﻓﮑﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﯾﮯ ﻓﻠﺤﺎﻝ ﻣﯿﺮﯼ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﺎﺭﻭ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮨﺮ ﻣﻼ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﻮﮎ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﯿﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﭘﺮ ﺍﯾﮉﺟﺴﭧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺟﺐ ﭨﻮﭘﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺑﻮﻟﯽ ﯾﺎﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﻤﺖ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭﻭ ﯾﮧ ﺳﻨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺑﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻣﺎﺭﺍ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﮬﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻠﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺳﻨﺒﮭﻞ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺍﻭﭘﺮ، ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻟﻦ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﮬﯽ ﭨﮑﺮﺍ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﻓﮯ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﺌﯽ ﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﻮﮌﯼ ﺑﻨﺎﻭﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ، ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﮔﮭﻮﮌﯼ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﭘﺮ ﺳﯿﭧ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮈﺍﻻ ﭘﮭﺮ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﭘﮭﺮ ﮈﺍﻻ۔ ﻣﯿﮟ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻣﺎﺭ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻧﮯ ﺳﺨﺖ ﮬﻮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﻭﮦ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﮭﭩﮑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﺁﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﻧﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭼﮭﻮﮌﺍ، ﺍﻭﺭ ﺻﻮﻓﮯ ﮨﺮ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻭﮦ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﻟﭩﯽ ﮬﯽ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻟﭩﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﻮ ُﭨﮭﺎﺋﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﮐﮭﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻭﭘﭩﮯ ﺳﮯ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺻﻮﻓﮯ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮐﮭﮍﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻦ ﮐﻮ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺴﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺖ ﺳﭙﯿﮉ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﭙﯿﮉ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﯾﺎﺭ ﺍﺑﺪﺭ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﻧﮧ ﮬﻮﻧﺎ ﺟﺐ ﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﺳﮑﻨﮓ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮬﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﻦ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﻭﮦ ﺻﻮﻓﮯ ﮨﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺭﮬﻨﮯ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﯿﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮔﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﺴﻢ ﺍﮐﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺳﮑﻨﮓ ﺗﯿﺰ ﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﻦ ﺣﻠﻘﺘﮏ ﻟﯿﺎ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﻗﻌﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺯﻭﺭﺩﺍﻉ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﭘﭽﮭﻠﮯ 30 ﻣﻨﭧ ﺳﮯ ﺭﮐﺎ ﮬﻮﺍ ﭘﺮﯾﺸﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﻠﻖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮﺍ۔ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ ﺁﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﮬﺎﺭﯾﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﮔﺮ ﮔﺌﯿﮟ ۔ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﭼﻮﺳﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯﭼﻮﺳﺘﯽ ﺭﮬﯽ ﮐﮧ ﺍﺧﺮﯼ ﻗﻄﺮﮦ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﯿﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﮈﮬﯿﻼ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﭘﭧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻨﮧ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﺁﺝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﺎﻓﯽ ﮬﮯ ﺻﺒﺢ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﺳﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻣﺎﺳﯽ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﮐﺪﮬﺮ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺑﻮﻟﯽ ﻓﯿﺼﻞ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﮬﻮﮔﺎ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺭﺟﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﺮ ﮬﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﮏ ﺁﮔﺌﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺎﺋﺪ ﻧﻮﭦ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻮﮞ ﻣﺎﻧﻮ ﮔﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮬﺎﮞ ﺑﻮﻟﻮ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﭘﻠﯿﺰ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﺗﻤﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﭽﯿﺎﮞ ﮬﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﻗﺘﯽ ﻃﻮﺭ ﮨﺮ، ﺍﺳﮯ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺩﻝ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ

ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﺴﺘﺮﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﮐﮭﺎﻧﺎ کزن ﺳﺴﭩﺮ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺁﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺑﮭﯽ ُ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﺪﻋﻮ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﮐﻠﺜﻮﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺗﻮ ﺻﺒﺢ ﺻﺒﺢ ﻓﯿﺼﻞ ﺁﺑﺎﺩ ﺟﺎ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭼﮑﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻟﮕﺎﺅﮞ ﺷﺎﺋﺪ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮬﺎﺗﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮨﺎﻧﭻ ﺩﻥ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻮ ﮐﻠﺜﻮﻡ ﻧﮯ ﺟﺎﻥ ﻧﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌﻧﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻧﮧ ﺟﺎ ﺳﮑﺎ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﺮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻓﺮﯼ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺴﭩﺮ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﯿﮑﮯ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﺏ ﺍﻣﯽ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﻮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺑﮩﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﭘﮭﻮ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ، ﺭﮬﺎ ﮬﻮﮞ ﺍﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﮐﺮ، ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﺟﺎﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﻣﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﭘﮭﺮ ﺟﻠﺪﯼ ﺁﺟﺎﻧﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﭘﺮﺱ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﭼﺎﺑﯿﺎﮞ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮬﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ۔ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ۔ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺑﺞ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﯾﮟ ﮈﻭﺑﺎ ﮬﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﻻﺋﯿﭩﮟ ﺁﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮐﮧ ﺷﺎﺋﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﺟﺎﺋﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﻣﻨﭧ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﮨﺎﺱ ﺟﺎ ﮐﺮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﮯ ﺍﺑﮯ ﮐﻮ، ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ، ﺍﺑﺎ ﺗﻮ ﻧﯿﻢ ﭘﺎﮔﻞ ﮬﮯ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﺭﺟﻮ ﯾﺎ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ۔ ﻭﮨﯽ ﮬﻮﺍ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻠﯽ ﺗﻮ، ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﺎ، ﺍﺑﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮬﻮ، ﺳﻮﭺ ﺟﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﻮ ﮬﻠﮑﺎ، ﺳﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺑﮯ ﮐﻮ، ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﮨﺮ ﻧﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻣﯽ ﮐﮧ ﺭﮬﯽ ﮬﯿﮟ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﭨﯽ ﭘﮑﺎ ﺩﻭ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﯾﮟ ﺍﺑﮯ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺁﺗﯽ ﮬﻮﮞ۔ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺑﮯ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﮬﻮﺵ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺳﮏ ﻧﮭﯽ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﻠﮑﻞ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ، ﮐﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔ ﮨﺎﻧﭻ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺭﺟﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﮭﻼﻧﮓ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ۔ ﺭﺟﻮ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﮭﯽ ﺗﻮ ﺑﻮﻟﯽ ﺑﺎﺟﯽ ﺍﯾﺪﮬﯽ ﺍﻣﯽ ﺗﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮭﯽ ﮔﮭﺮ۔ ﯾﺎﯾﻦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﭼﭗ ﺭﮬﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﮬﺎﻥ ﺟﯽ ﻓﺮﻣﺎﺅ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺩﻝ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﺗﻮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮨﮍﯼ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺭﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﮬﺎﮞ ﺟﯽ ﭘﺘﮧ ﮬﮯ ﺁﺝ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻠﺜﻮﻡ۔ﺟﻮ ﮔﮭﺮ ﮨﺮ ﻧﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﺎ، ﺧﯿﺎﻝ ﺁﮔﯿﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﭘﭽﺠﻠﮯ ﺩﻭ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺟﺎﮒ ﮐﺮ ﭘﮩﺮﮦ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﮬﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺑﺎ ﻧﮧ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﮞ ﻧﮧ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺭﺟﻮ ﺑﻈﺎﮬﺮ ﺑﭽﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮏ . ﻭﯼ ﺑﭽﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻠﺜﻮﻡ ﮐﺐ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ، ﮐﺐ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﮬﻨﺲ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﯽ ﺑﺎﮈﯼ ﮔﺎﺭﮈ ﮬﻮ۔ ﻭﮦ ﺷﺮﻣﺎ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﺍﮔﺮ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﮬﻤﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻭﻗﺖ ﺩﮮ ﺩﻭ۔ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺑﻮﻟﯽ ﻧﮭﯽ ﺳﺎﺣﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮭﯽ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﮒ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﻧﮭﯽ ﺭﮎ ﺳﮑﺘﯽ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺁﻭﮞ ﮔﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺟﺎﻧﺎ ﮬﻢ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﮔﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﯾﺎﺭ ﺗﻢ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺟﺎﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﯿﻼ ﮬﯽ ﮬﻮﮞ ﮔﺎ۔ ﺭﺟﻮ ﮐﻮ ﺍﺑﮯ ﮐﮯ پا ﭼﮭﻮﮌ ﺁﻧﺎ۔ ﻭﮦ ﺗﻨﮏ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﺟﯽ ﻧﮭﯽ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﺮﮦ ﻧﮭﯽ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻠﺜﻮﻡ ﻣﺠﮭﮯ 200 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ﯾﮧ ﮐﻨﮕﻠﯽ ﮐﯿﺎ ﺩﮮ ﮔﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﺗﻮ، 200 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﺟﻨﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ 200 ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﺟﻮ ﮐﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﮨﺮ ﺭﮐﮭﮯ۔ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺑﻮﻟﯽ ﺳﺎﺣﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﺖ ﮐﻤﯿﻨﯽ ﮬﮯ ۔ ﺭﺟﻮ ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮬﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺟﻮ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﮩﺮﮮﺩﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻻﻟﭻ ﻣﯿﮟ ﮐﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﯿﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﺁﺳﺎﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺟﻮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﮬﻤﯿﮟ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﭧ ﺩﻭ ﮬﻢ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮔﭗ ﺷﭗ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﻧﺎ۔ ﺭﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ُﭨﮫ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﺻﺮﻑ پاﻧﭻ ﻣﻨﭧ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﮬﻨﺴﯽ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﮬﻮﻧﭧ ﺭﮐﮫ ﺩﺋﯿﮯ۔ ﺩﻭ ﻣﻨﭧ ﮐﺴﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﯾﺎﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮩﻦ ﺗﻮ ﺑﮭﺖ ﻻﻟﭽﯽ ﮬﯽ۔ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﻭ ﮔﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﯾﺎﺭ ﯾﮧ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ﺍﮔﺮ ﭘﯿﺴﮯ ﻧﮧ ﺩﻭﮞ ﺗﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﻞ ﮬﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﮩﻮ ﺗﻮ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﮐﯿﺎ ﺣﻞ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺳﮯ ﺁﺝ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﻧﮭﯽ ﯾﺎﺭ ﻭﮦ ﺑﭽﯽ ﮬﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﻧﮭﯽ ﮐﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﯾﺎﺭ ﺗﻢ ﺑﮯﻓﮑﺮ ﺭﮬﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯽ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ ﺻﺮﻑ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ 200 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺩﮮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻢ ﺍﺳﮯ ﮈﺭﺍﻧﺎ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺭﻭﺯ ﺭﻭﺯ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﭼﮭﮍﺍﻭ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﯾﺎﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﻨﺎ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ 17 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﭽﯽ ﮬﯽ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﻨﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﺘﮧ ﻧﮭﯽ ﻭﮦ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻧﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ نے ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﺍﺑﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻭ ﺍﻭﺭ ﺭﺟﻮ ﮐﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﭼﺎﺋﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﻮ۔ ﺟﺐ ﺭﺟﻮ ﭼﺎﺋﮯ ﺩﮮ ﮐﺮ، ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮩﮯ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮬﻮﮞ ﺁﺝ ﺗﻢ ﻧﮧ ﺁﻧﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﺍﺿﯽ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﮬﮯ ﺗﻢ 11 ﺑﺠﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﯾﮑﭩﯿﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﮬﮍﮎ ﮬﻮ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﭘﻮﻧﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﺁﺟﺎﻧﺎ ا ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﭘﮑﮍﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮭﯽ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﯽ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ، ﺁﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﭘﯿﺴﮯ ﭼﺎﮬﯿﺌﮯ ﺗﻮ ﺑﺘﺎﻭ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﺠﮭﮯ 500 ﺭﻭﮨﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﮐﻞ ﺩﮮ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ 500 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﺋﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ  ﺗﻢ ﻭﺍﭘﺲ،ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔ ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺭﺟﻮ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ۔ 20 ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺭﺟﻮ ﭼﺎﺋﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺭﺟﻮ ﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ ﻭﮦ ﮐﮭﺴﻤﺴﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﻝ ﭘﺮ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﺗﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﺭﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻮﮞ۔ ﻭﮦ ﺭﮎ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﺟﯽ ﺑﻮﻟﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ﺭﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﮬﻮﮞ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺟﯽ ﻧﮭﯽ ﺁﭖ ﺑﺎﺟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﻧﮭﯽ ﮐﺮﺗﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﯾﺎﺭ ﺭﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮬﻮ ﺑﺎﺟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭﺍً ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﻮﮞ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺟﯽ ﻧﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮭﯽ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﺍﺿﯽ ﺑﺲ ﻧﺨﺮﮮ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﺍﻭ ﮐﮭﯿﻼ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﺭﺟﻮ ﺍﮔﺮ ﺁﺝ ﺭﺍﺕ ﺗﻢ ﺟﺎﻭ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﻧﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺟﯽ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﮮ ﮔﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺗﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ 200 ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺳﺎﮌﮬﮯ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﺁﺟﺎﻧﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﭘﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﻧﮯ ﺁﻧﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ نے ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﺟﺎ ﮐﺮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﻮ ﻣﻨﻊ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﮞ ﮔﺎ۔ ﺟﺐ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺳﯽ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﮯ ﺍﮔﺮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺳﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺁﻭﮞ ﮔﯽ ﻭﺭﻧﮧ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻧﮧ ﮬﻮﻧﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﺲ۔ ﻭﮦ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ میں ﻧﮯ ﭨﺎﺋﻢ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ 9 ﺑﺠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ، ﺳﮯ نﮑﻼ، ﺍﻭﺭ ﭘﯽ ﺳﯽ ﺁﻭ ﺳﮯ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﻼﯾﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﭧ ﮬﻮ ﺟﺎﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ، ُﺩﮬﺮ ﮬﯽ ﺳﻼ ﻟﻮ ﺻﺒﺢ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮬﻮﭨﻞ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺳﺎﮌﮬﮯ ﺩﺱ ﺑﺠﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﻮ ناول ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻓﯿﻮﺭﭦ ﻧﺎﻭﻝ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﻮﻧﮯ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﮭﻼﻧﮓ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﮬﻮ۔ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺭﺟﻮ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺝ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﻥ ﮬﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﻮﻧﭧ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﻮ، ﻭﮦ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮬﭩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﺳﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﺴﮯ ﺟﺎﻥ ﻧﮭﯽ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺎ، ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮬﺘﯿﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺁﭖ ﺑﮍﮮ ﮔﻨﺪﮮ ﮬﻮ میں ﮬﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﭘﯿﺎﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﮬﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ 100 ﻭﺍﻟﮯ ﭘﺎﻣﭻ ﻧﻮﭦ ﭘﮑﮍﺍﺋﮯ ﺗﻮ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺵ ﮬﻮ ﮐﺮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﮉ ﮨﺮ ﻟﭩﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ میر ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮬﻮ ﺗﻮ ﺗﻤﯿﮟ 200 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ۔ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﯽ ﻧﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ ﻭﯾﺴﮯ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻧﮕﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﻭﺍﻗﻌﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮬﺎ ﻭﺍﻗﻌﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﻭﺍﻻ ﮐﺎﻡ ﺗﻮ ﻧﮭﯽ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺟﻮ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﻮ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﺑﮩﺖ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺐ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ، ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ نہیں ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ۔ ﺑﮍﺍ ﺩﺭﺩ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﮬﻨﺴﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﮟ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﮭﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮬﻮ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ۔ ﺭﻭﮐﻨﺎ ﻧﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﻠﯿﺰ ﺩﺭﺩ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﺍﻭﮐﮯ ﮐﮧ ﮐﺮ ﻣﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﺴﻨﮓ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﮬﻮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﺗﮭﯽ پر ﺭﮐﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻤﮯ ﺑﮩﺖ ﮬﯽ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ ﺷﺎﺋﺪ 32 ﯾﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﭨﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮬﺎﺗﮫ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﺑﮭﺖ ﮔﺮﻣﺎ ﮬﻮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺷﺎﺋﺪ ﻓﺮﺳﭧ ﭨﺎﺋﻢ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﺟﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔

 

 

 

ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻧﭙﻠﺰ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺎ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﺘﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﮍﭖ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺎﻟﻮﮞ ﮨﺮ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﭘﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺩﻥ ﭘﺮ ﮐﺲ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﮍﭘﺘﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﺎ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻟﮕﺎ ﮬﻮ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﮬﻮﻧﭧ ﺭﮐﮫ ﺩﺋﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﺎﻟﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﻮﺳﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻋﺠﯿﺐ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﮬﯽ ﻭﮦ ﺍﻧﺠﻮﺍﺋﮯ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﯽ ﻭﮦ ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﺍﺱ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺗﮫ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﻞ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮧ ﻟﮕﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﭨﺎﺋﯿﭧ ﮬﻮﺍ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﻭﮦ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮬﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﭼﯿﮏ ﮐﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮬﻮﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮬﻠﮑﮯ ﺳﮯ ﺷﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﮔﺮﺩﻥ ﮬﻼﺋﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻮﮐﮫ ﮔﯿﺎ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻮ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﻧﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺷﺮﻡ ﺁﺗﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮬﻨﺲ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﻻﺳﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮭﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﻮ ﮔﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﮔﯿﻠﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ، ﻣﻄﻠﺐ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﻧﮉﺭﻭﺋﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮭﯽ ﭘﮩﻨﺎ ﮬﻮﺍ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﭘﻠﯿﺰ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ لاﺳﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮ ﺩﮮ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﻨﮏ ﮐﻠﺮ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﮭﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﮯ۔ ﺳﺎﺋﯿﮉﻭﮞ پر ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﺮﺍﻭﻥ ﮐﻠﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺎﺋﯿﺪ ﺍﺑﯽ ﺗﮏ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﻧﮭﯽ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ نے ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮍﺍ ﮬﻮﺍ ﺍﺱ کا ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﻮﮞ ﭘﻠﯿﺰ ﺁﭖ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮬﺎﺗﮫ ﺁﮔﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﮮ۔ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﻧﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﭼﮭﮍﺍﺗﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺿﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻢ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﺳﮑﻮ۔ ﯾﮧ ﻧﮧ ﮬﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﮬﭩﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺭﺟﻮ ﮐﯽ ﮬﭙﺲ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﻧﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺗﻮ ﺑﻠﮑﻞ ﺑﻨﺪ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﮕﺎ ﻧﮭﯽ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮐﯿﮟ ﺗﻮ ﭼﻮﺕ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﺒﺎ ﺟﻠﻮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺭﮬﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﮬﯽ ﻧﮭﯽ ﭼﻼ ﮐﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻮﻧﭧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﺎ ﻟﻤﺲ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﮐﮭﯿﻨﭽﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﮐﮭﯿﻨﭽﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺍﮨﻨﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﻮﻧﭧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺍﺏ ﻭﮦ ﻭﯾﺴﮯ ﮬﯽ ﺑﮯﺑﺲ ﮬﻮ ﮐﺮ ﺭﮐﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮑﺪﻡ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮬﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﺍﻑ ﺗﻮﺑﮧ ﺁﭖ ﮐﺘﻨﮯ ﮔﻨﺪﮮ ﮬﻮ۔ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﻮ ﭼﺎﭦ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ﺭﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﺍﺻﻞ ﭘﯿﺎﺭ ﯾﮩﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺳﭻ ﺑﺘﺎﻭ ﺗﻤﯿﮟ ﻣﺰﮦ ﻧﮭﯽ ﺁﯾﺎ ﮐﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﮬﺎﮞ ﻣﺰﮦ ﺗﻮ ﺁﯾﺎ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺴﯽ ﮔﻨﺪﯼ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﻮﻥ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﺗﻢ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮧ ﮬﻮ۔ ﺑﺲ ﺗﻢ ﻣﺰﮦ ﻟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﮔﻨﺪﮦ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﭼﻠﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﮔﺮﺩﺵ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﺎ ﺭﺱ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﮬﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ آﮬﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﻧﮯ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺩﮬﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯿﺮ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺟﻮ ﻟﺰﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﭘﺮ ﺗﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﭘﺘﮧ ﮬﯽ ﻧﮭﯽ ﭼﻼ ﮐﮧ ﮐﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻟﯿﭧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺲ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﺑﻨﺪ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻦ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻧﮕﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻟﯽ ﮬﺎﺋﮯ ﺳﺎﺣﺮ ﺟﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺑﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮐﺘﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﮬﮯ۔ ﭘﻠﯿﺰ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﻟﮓ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ﺭﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻭ ﺍﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﭘﮭﺪﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﮐﺘﻨﺎ ﻣﺰﮦ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﻨﮯ ﺷﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮬﻠﮑﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﮬﻼ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺰﮦ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﻧﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﮬﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺩﺭﺩ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﭼﯿﺨﺘﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮬﮯ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﮬﻨﺴﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﻧﮭﯽ ﺭﺟﻮ ﯾﮧ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﻧﮭﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺑﺎﺟﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺘﯽ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﻣﺮﻭﺍ ﻣﺮﻭﺍ ﮐﺮ ﺑﮭﺖ ﮐﮭﻠﯽ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﮬﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﺎﺭﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﮔﺎﻧﮉ ﻧﮭﯽ ﻣﺎﺭﻧﯽ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﺗﻢ ﻭﯾﺴﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺑﮭﺖ ﻣﺰﮦ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺁﭖ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮﯼ ﮔﺎﻧﮉ ﻧﮭﯽ ﻣﺎﺭﻭ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﯽ ﻧﮭﯽ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮩﻮﮔﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺴﺎ ﮬﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﭘﮑﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﮯ ﺑﺘﺎﻭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﻟﯿﭧ ﮐﺮ ﺗﻤﮭﺮﯼ ﭘﮭﺪﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﯿﻠﯽ ﮬﻮ ﮐﺮ ﻧﺮﻡ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺱ ﻟﻦ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﯿﻼ ﮐﺮﻧﺎ، ﺗﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﺮﻡ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮬﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮬﻼﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ 69 ﺯﺍﻭﺋﯿﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﮐﮭﺎ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﻣﯿﺮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻟﻮﻟﯽ ﭘﻮﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﭦ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ حلقے سے ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺍﻧﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭ ﺩﺋﯿﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮬﻮ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﯿﮉ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻨﮉﻭﻡ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﭼﮍﮬﺎﯾﺎ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﺯﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﮏ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﻮ ﺁﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮬﺌﯿﮯ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﺘﮧ ﻧﮭﯽ ﻭﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮬﺎ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺁﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﮐﻼﺋﻤﮑﺲ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮬﻮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﻣﺴﻞ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﺭﻭﮎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺭﮔﮍﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮭﯽ ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﭧ ﮐﺮ ﻟﻦ ﮐﻮ، ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ پر ﻓﭧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺗﮫ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﮑﯿﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﮬﭗ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﺱ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻟﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﻓﭧ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﯾﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﯿﺦ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﺎ ﻧﮑﻞ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺯﻭﺭﺩﺍﺭ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺍﺳﮑﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﭘﮭﺎﮌﺗﺎ ﺁﺩﮬﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﻭﺭ ﺩﺍﺭ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻠﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﮍﭖ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺯﺑﺢ ﮐﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﺑﮑﺮﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﮍﭖ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺭﮎ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮬﻠﭽﻞ ﮐﭽﮫ ﮐﻢ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﮬﻮﻧٹ ﮬﭩﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻧﯿﭽﮯ ﺭﻭ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ سلمان ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮑﺎﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﺟﺎﻭﮞ ﮔﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﮭﺪﯼ ﭘﮭﭧ ﮔﺌﯽ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎﯾﺎﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﯾﮧ ﺑﺲ ﭘﮭﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﺐ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻦ ﭘﺮ ﭼﭙﭽﭙﺎﮬﭧ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮬﻮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻦ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮭﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺩﯾﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﻟﻦ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮨﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﺧﻮﻥ ﻧﻈﺮ ﺁﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻮﻗﻊ ﺿﺎﺋﻊ ﻧﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﮐﺴﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ . ﺍﺳﮑﯽ ﺳﯿﻞ ﭘﮭﭧ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﺗﮍﭖ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﻣﺰﯾﺪ ﺭﺣﻢ ﮐﮯ ﻣﻮﮈ ﻣﯿﮟ ﻧﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺴﮑﻨﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﺠﮫ ﻣﺴﺮﻭﺭ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﯿﻼ ﭘﻦ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﭨﺎ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮑﯽ ﮬﻠﭽﻞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺘﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﻦ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺑﯿﮉ ﺷﯿﭧ ﭘﻮﺭﯼ ﻻﻝ ﮬﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﮑﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﮬﻞ ﺳﮑﮯ۔ ﺑﻠﯿﮉﻧﮓ ﺑﮭﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﯿﭽﮯ ﻣﯿﭩﺮﯾﺲ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﻻﻝ ﮬﻮﺍ ﮬﮯ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﻟﮓ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮬﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮬﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺍﻧﮕﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﻧﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ، ﺷﺎﺋﺪ ﺭﺟﻮ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﺎﻝ ﻧﺎ ﮬﻮﺗﺎ۔ ﺧﯿﺮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺟﻮ ﮐﺎ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺷﺎﺋﺪ ﭼﻞ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺁﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺪﺩ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﮉﺭ ﻭﺋﯿﺮ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﻦ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﭘﮩﻨﯽ۔ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﻨﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺟﻮ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﺻﺎﻑ ﮐﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻠﯿﮉﻧﮓ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮬﻮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﺍ ﮬﺎﺗﮫ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮬﻮﺍ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﺳﻮﺝ ﮔﺌﯽ ﮬﻮ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﮬﺎﺗﮫ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺗﮍﭘﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﺑﻨﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﯿﺎﻥ ﮐﻮ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﻠﯿﮉﻧﮓ ﻧﮧ ﮬﻮ . ﻭﮦ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺭﻭ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮉﺭ ﻭﺋﯿﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺷﺮﭨﺲ ُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻧﮉﺭﺅﺋﯿﺮ ﺭﺟﻮ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﺎﯾﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﻨﯿﺎﻥ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﻭﮦ ﻧﺎ ﮔﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﭘﮩﻨﺎﺋﯽ۔ ﺭﺟﻮ ﮐﻮ، ُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭘﺎﺱ پرے ﺻﻮﻓﮯ ﭘﺮ ﻟﭩﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮉ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻟﭙﯿﭩﯽ ﺗﻮ ﻧﯿﭽﮯ ﻣﯿﭩﺮﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﻍ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺷﺮﭦ ﺳﮯ ﻣﯿﭩﺮﺱ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﻍ ﺍﺗﻨﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ ﺳﻮﭼﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺭﺟﻮ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﻭﮞ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺭﺟﻮ ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺑﮩﺘﺮ ﻟﮓ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺭﺟﻮ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮬﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺎﻥ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﻮﺭﯼ ﺑﻮﻻ ﺗﻮ، ﻭﮦ ﮬﻨﺲ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﮬﺎﮞ ﺟﯽ ﺩﺭﺩ ﺗﻮ ﻭﺍﻗﻊ ﺑﮭﺖ ﮬﻮﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﭽﯽ ﺩﺭﺩ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮬﮯ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮬﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﺝ ﻧﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺩﺭﺩ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﭼﻠﻮ ﺍﺏ ﮬﻤﺖ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻭ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﻧﮧ ﺍﭨﮫ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﻭﮦ ُﭨﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﮬﻮ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺩﮬﺮ ﻧﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﮔﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﮬﻤﺎﺭﺍ ﭘﻼﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﮬﺎﮞ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﮬﻤﺖ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﻮﮞ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺮﺍﻧﮕﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺭﺟﻮ ﮐﻮ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﺑﻨﺎﺭﮨﮯ ﮬﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﻞ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺰﮮ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺧﯿﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮ ﭘﺎﻧﭽﻮﮞ ﮔﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﮐﮍﺍﮬﯽ ﻣﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺟﻮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﺟﺎﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺩﺍﻍ ﻏﺎﺋﺐ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﻭﺭﻧﮧ ﺻﺒﺢ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﮬﮯ۔ ﻭﮦ ﮬﻨﺲ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﻧﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻠﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺍﺏ ﺟﺎﻭ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﯿﺮ ﭘﮭﺮ ﺟﺎﮒ ﺭﮬﺎ ہے ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻦ ﮐﻮ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺳﻮﺭﯼ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﻓﻮﺭﺍً ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺳﮑﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﭨﺲ ﮔﯿﻠﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﭩﺮﺱ ﮐﻮ ﺣﺘﯽ ﺍﻟﻤﻘﺪﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﭩﺮﺱ ﮐﻮ ﺍﻟﭩﺎ ﮐﺮ ﻧﺌﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﭼﮭﭙﺎ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻏﺎﺋﺐ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭ ﺑﺞ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﮬﯽ ﺗﮭﮏ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ۔ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺁﻧﮑﮫ ﻟﮕﯽ ﭘﺘﮧ ﮬﯽ ﻧﮭﯽ ﭼﻼ۔ ﺳﻮﺗﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﮬﻮ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﭙﭩﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺮﮮﮐﯽ ﻻﺋﯿﭧ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﮬﯽ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﭙﭩﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﮍﯼ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ ﺗﻮﺻﺒﺢ ﮐﮯ 4:25 ﮬﻮ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺩﻭ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺳﻮﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻢ۔ﮐﺐ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺑﻮﻟﯽ 10 ﻣﻨﭧ ﮬﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﯾﺎﺭ ﺁﭖ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﻇﺎﻟﻢ ﮬﻮ ﺭﺟﻮ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﭘﮭﺎﮌ ﭘﮭﺪﺍ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺭﮬﮯ ﮬﻮ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﻓﻞ ﺑﺨﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮍﭖ ﺭﮬﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﭘﯿﻨﺎﮈﻭﻝ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺁﺋﯽ ﮬﻮﮞ۔ ﻣﯿﮟ ﮬﻨﺲ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ﯾﺎﺭ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺎﮌﻧﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺎﮌ ﺩﯼ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮬﻮﺍ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﯽ ﭘﺮ ﺯﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﺭﺣﻢ ﻧﮭﯽ ﺁﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻢ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﮬﻮ۔ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺁﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﺎ ﯾﮧ ﺣﺸﺮ ﻧﮧ ﮬﻮﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻢ ﻧﮯﺧﻮﺩ ﺍﺳﮑﯽ ﭘﮭﺎﮌﻭﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﭘﻼﻥ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮬﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮭﺎﮌﻭﺍﻧﮯ ﺁﮔﺌﯽ ﮬﻮ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﺩﯾﺮ ﮐﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﻮﻧﭧ ﺍﺳﮑﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﺑﮭﺮﺍ ﺑﮭﺮﺍ ﺳﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻤﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺑﮍﮮ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﮬﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﺑﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﻼ ﺗﮑﻠﻒ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﺎ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﯾﺎﺭ ﺯﺭﺍ ﺟﻠﺪﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺠﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺁﺟﺎﻧﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ، ﺍﺑﮯ ﻧﮯ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﻧﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻟﻮ ﭘﮭﺮ ۔ ﯾﮧ ﮐﮧ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﮬﭙﺲ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﺗﺎﺯﯼ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﺳﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﮬﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﮬﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮬﭗ ﭘﺮ ﮔﮭﻮﻣﺘﺎ ﮬﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﭘﺮ ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﺴﮯ ﮬﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺗﮍﭘﺘﯽ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﺑﮭﺖ ﺗﻨﮓ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﻨﮯ ﯾﺎ ﺗﻮ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﺮﻭﺋﯽ ﻧﮭﯽ ﯾﺎ ﺑﮭﺖ ﮐﻢ ﻣﺮﻭﺍﺋﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺟﻮ ﮐﻮ ﭼﻮﺩﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﮯ ﭘﮭﺪﮮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺟﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﺎ ﻟﻮﺷﻦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺷﺎﺋﺪ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺛﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺑﮍﮮ ﮬﯽ ﺳﭩﺎﺋﻠﺶ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﺳﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﮦ 69 ﮐﮯ ﭘﻮﺯ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﮯ ﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﮨﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﻮﺷﻦ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺎﮬﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﭘﺮ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﮭﺴﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﯽ۔ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﻣﯿﮟ مستی ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﯿﻦ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺎﮬﺮ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ

ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻟﻤﻮﻝ ﮔﮭﻤﺎﺗﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ آﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﻟﮯ۔ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﻦ ﺟﮍﻭﮞ ﺗﮏ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﮯ ﭼﻮﺱ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﮬﻤﺖ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﮬﺎﺭ ﺷﺎﺋﺪ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻣﻨﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﻨﯽ ﮐﻮ ﭼﺎﭨﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﮐﮭﯿﺮ ﮐﯽ ﭘﻠﯿﭧ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺍﺳﮑﺎﭼﺎﭨﻨﮯ ﮐﺎﺍﻧﺪﺍﺯ ﺍﺗﻨﺎ ﻇﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﻮﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﭼﻮﺱ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺷﺎﺋﺪ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﮐﮭﺎ ﮬﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺱ ﭘﮍی ﺭﺍﺕ ﻭﺍﻟﯽ ﺷﺮﭨﺲ ﺳﮯ ﮈﺭﺍﺋﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﻮﻧﭧ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﭨﺎﺋﻢ ﺩﮮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ میر ﺷﯿﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﮭﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ 4:45 ﮬﻮ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﻣﻨﭧ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﺖ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮉ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﺗﺮ ﺁﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﻮﮌﯼ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ﻭﮦ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﮔﮭﻮﮌﯼ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﯿﮉ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﮭﺴﺎ ﺩﯾﺎ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﺪﯼ ﻧﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﮭﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻣﺎﺭ ﺭﮬﺎ ﮬﻮﮞ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﭽﮫ ﻧﮭﯽ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺟﮭﭩﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﮑﮯ ﺟﺴﻢ ﻧﮯ ﺍﮐﮍﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮ ﺭﮬﯽ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﭨﺎﺋﻢ ﻟﮕﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﮭﭩﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﭙﯿﮉ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺩﺑﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮔﺮﻡ ﮨﺎﻧﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮬﻮ ﻭﮦ ﺟﺐ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﮮ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯿﻨﭻ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﭘﺮ ﮈﮬﯿﻠﯽ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﮔﺎﻧﮉ ﭘﺮ ﮬﺎﺗﮫ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﻧﮭﯽ ﺳﺎﺣﺮ ﺑﮭﺖ ﺩﺭﺩ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﻮﮞ ﮐﮧ ﺩﺭﺩ ﻧﮧ ﮬﻮ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﻧﮭﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﻮﮌﯼ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻟﻮﺷﻦ ﮔﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﭘﺮ ﮈﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﻮﭘﯽ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮨﺮ ﺍﯾﮉﺟﺴﭧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮬﻠﮑﮯ ﮬﻠﮑﮯ ﺩﺑﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﺐ ﭨﻮﭘﯽ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﯾﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮬﯽ ﮐﯿﺎ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺑﺎﺭ ﭨﻮﭘﯽ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮭﯽ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﮑﯿﮧ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﮯ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮬﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﮔﯽ۔ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺗﮑﯿﮧ ﭘﺮ ﻣﻨﮧ ﺩﺑﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﭨﺎﺋﻢ ﺍﯾﮏ ﺯﻭﺭﺩﺍﺭ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺩﮬﺎ ﻟﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻠﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﮑﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭗ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﻮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﺯﻭﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﻼﺋﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﭘﯿﭧ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﭘﮭﻨﺴﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﻧﮯ ﺩﯾﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﺳﺎﺣﺮ ﭘﻠﯿﺰ ﺑﺲ ﮐﺮﻭ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ ﺟﻮ ﺩﺭﺩ ﮬﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺑﺲ ﻣﺰﮦ ﮬﮯ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﯼ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﻮ 4:53 ﮬﻮ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﺕ ﻣﻨﭧ ﮬﯽ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﻦ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺁﮔﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺸﯿﻦ ﭼﻠﺘﯽ ﮬﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻟﮓ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﭨﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﭨﻨﺸﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻨﮓ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ 2 ﻣﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﮈﺳﭽﺎﺭﺝ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﻗﻤﯿﺾ ﭘﮩﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺲ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﯼ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﺎﮔﯽ۔

ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﮐﺎفی ﺩﻓﻌﮧ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﻠﺜﻮﻡ ﮐﻮ ﭼﻮﺩﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺟﻮ ﭘﮭﺮ ﮬﺎﺗﮫ ﻧﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺗﻨﺎ ﯾﺎﺩ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ﺑﺨﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺩ ﺭﮬﺎ۔

ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﯿﺴﯽ ﻟﮕﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺷﮑﺮﯾہ

مکمل تحریر >>